Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ 
پيوندهای روزانه

شیعوں کو کیے گے چیلنج کا جواب

جوابات:

1۔شیعہ کلمہ اور اذان بند ہی نہیں ہوئی کہ جو بعد میں جاری کروانے کی ضرورت پڑے۔۔۔۔اہلسنت کتاب مشکوة صفحہ63 پے موجود ہے کہ دور رسولؐ میں جو اذان دی جاتی تھی اس کے 19کلمے تھے۔۔۔۔جب کہ شیعہ اذان(اسلامی اذان) کے کلمات 19 ہے اور اہل سنت اذان کے 15۔بس معلوم ہوا کہ یہ اذان بند ہی نہیں ہوئی کہ جس کو جاری کیا جائے۔جیسا کہ اصحاب رسولؐ کا اذان میں حی علی خیرالعمل کہنا امام بخاری کے استاد ابن ابی شیبہ کی کتاب المصنف جلداول صفحہ247 طبع بیروت سے ثابت ہے۔الحمدللہ شیعیان حیدر کرارؑ اس اذان پے دور رسولؐ سے لیکر اب تک قائم و دائم ہے۔

اور کلمہ میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے بعد علی ولی اللہ دور رسولؐ میں ہی پڑھا جاتا تھا۔جیسا کہ اہل سنت کتاب ینابیع المودة جلد2 صفحہ298 گواہ ہے۔نیز حضرت علیؑ کا ایک یہودی کو کلمہ میں ولایت کی گواہی کے ساتھ صحابہؓ کے سامنے مسلمان کرنا معتبر سند کے ساتھ اہل سنت کتاب المجتنی لابن درید ازدی بصری صفحہ24 میں موجود ہے۔

پہلا سوال ہی غلط ہے۔

2۔تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علیؑ کو جنگوں نے ہی مہلت نہیں دی کہ وہ بدعات کو ختم کر سکے جیسا کہ اسی بات کا اعتراف مولانا شاہ معین الدین ندوی نے خلفاء راشدین در حالات مولا علیؑ میں کیا ہے۔البتہ کسی کتاب میں ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علیؑ یا اہل بیتؑ میں سے کسی نے ایک بار بھی تراویح کی نماز پڑھی جب صحیح بخاری باب قیام رمضان کے مطابق تراویح کے موجد عمر بن خطاب نے ہی تراویح کو نعم البدعة ھذہ(یہ اچھی بدعت ہے) فرما دیا تو اس کی حثییت کیا رہ جاتی ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں جبکہ بدعت کا کبھی بھی عبادت میں شمار نہیں ہوتا۔

3۔مسجد یا امام بارگاہ کا تقابل جائز ہی نہیں کیونکہ دونوں ایک ہی عبادت کے لیے ہیں تاریخ گواہ ہے بعد از رحلت رسالت مآبؐ جناب فاطمہؑ کے لیے حضرت علیؑ نے مدینہ سے باہر بیت الحزن نام کا مکان تعمیر فرمایا جس میں آپؑ گریہ فرماتی۔یہی سب سے پہلا امام بارگاہ ہے۔نیز امام شافعی فرماتے ہیں کہ بیت الحزن میں نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ بس مذکورہ اعتراض ہی باطل ہے۔ملاحظہ ہو اہل سنت کتاب وفا الوفا محدث سمہودی اور جذب القلوب الی دیار المحبوب شاہ عبدالحق محدث دہلوی۔

نیز سائل یہ بتا دے کہ کعبہ کی کمائی سے خادمین حرمین شریفین کا سینما گھر بنانا کس صحابی کی سنت ہے!

4۔نکاح متعہ تاقیامت کے لیے جائز ہے یہی وجہ ہے کہ آئمہ اربعہ میں سے امام مالک متعہ کے جواز کے قائل تھے(فتاوی برہنہ)۔

اگر متعہ بند ہوتا تو کبھی بھی امام مالک اس کی حلت کے قائل نہ ہوتے۔

امام سیوطی تاریخ الخلفاء صفحہ142 باب اولیات عمر کے تحت لکھتے ہیں کہ متعہ کو عمر نے حرام قرار دیا۔

مولا علیؑ نے عمر کہ اس فعل کی ان الفاظ میں مذمت فرمائی کی "اگر عمر متعہ کو حرام نہ قرار دیتا تو سوائے بدکار کے کوئی زنا نہ کرتا"ملاحظہ ہو اہل سنت کتاب تفسیر کبیر امام رازی سورہ نساء آیت24۔

جب مولا علیؑ نے مذمت فرما دی تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ متعہ کو جاری کیوں نہ فرمایا۔اسی مذمت کی وجہ سے بعد میں کئی تابعین حلت متعہ کے قائل رہے بلکہ اہل سنت محدث ابن جریح نے اہل سنت فرقہ مالکیہ کی مستورات کے ساتھ 70بار متعہ کیا(میزان الاعتدال ترجمہ ابن جریح)۔

5۔فدک پر چونکہ دور امیرالمومنین علیؑ میں مروان لعین کا قبضہ تھا اور تاریخ گواہ ہے کہ مروان سے بڑا فسادی کوئی نہ تھا جیسا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تحفہ اثنا عشریہ صفحہ64 طبع دہلی میں مروان جو گروہ نواصب کا رئیس قرار دیا ہے بس مولا علیؑ نے رفع شر کی خاطر فدک کو لینا مناسب نہ سمجھا۔دوسری بات کہ عائشہ و معاویہ کی لگائی گئی جنگی آگ نے مہلت ہی نہ دی۔حالانکہ رحلت رسالت مآبؐ کے بعد حضرت علیؑ کا فدک کے بارے وراثت بتولؑ کے حق میں گواہی دینا اہل سنت کتاب شرح المواقف صفحہ726 طبع لکھنوء میں موجود ہے۔نیز امن و امان کے دور میں اموی خلیفہ عمر ابن عبدالعزیز کا فدک کو سادات کے حوالے کرنا سیرة النبی جلداول صفحہ541 شبلی نعمانی کے حاشیہ میں موجود ہے۔

تحریر: حیدر

[ پنجشنبه بیستم اردیبهشت ۱۴۰۳ ] [ 12:19 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
.: Weblog Themes By themzha :.

درباره وبلاگ

ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر
امکانات وب