Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ 
پيوندهای روزانه

قاتلان حسین علیہ السلام کا تعارف

کیا امام حسین علیہ السلام کو شیعوں نے شہید کیا؟؟

یاد رکھیے:اعتراض جس قدر حساس ہوگا جواب سننےکا حوصلہ بھی اسی قدر زیادہ درکار ہوگا۔

آپ کے کسی پیارے، عزیز اور چاہنے والے نے کسی کو قتل کر دیا ۔جنازہ گھر پہنچا سب رونے پیٹنے میں مصروف ہو گئے، اسی دوران آپ آکر دلجوئی کرنے کے بجائےیہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہ اس مقتول کے قاتل تو اس کے یہی رونے والے اپنے عزادارعزیز ہیں ۔حالانکہ سارا جہاں جانتا ہے کہ قاتلوں کے ساتھ آپ کے مراسم،تعلقات اور ہمدردیاں ہیں۔ایسے میں مقتول کےعزادار ورثا کہ جو پہلے سے ہی صدمے سے داغدار ہیں اور مزید ایسی بیہودہ تہمت سن کر انکا ردعمل کیا ہوگا؟یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں ۔

امام حسین علیہ السلام کے عزاداروں کو انکا قاتل قرار دینا بالکل ایسا ہی ہے۔

میرے بھائی:جیسے آپ سے کسی نے ہمدردی کے اظہار کا تقاضہ نہیں کیا، ویسے ہی آپ کو اپنے مخالف کی ہر بات پہ اعتراض کا ٹھیکہ بھی کسی نے نہیں دے رکھا۔

ا:60ھجری میں لفظ شیعہ سے کیا مراد لیا جاتا تھا؟

اگرچہ شیعیان علی خود رسول اللہ کے زمانہ میں اصطلاح رواج پا چکی تھی اور صحابہ کی ایک جماعت باقاعدہ شیعیان علی کے نام سے معروف تھی اس پر بعض احادیث نبویہ بھی شاھد ہیں جیسے یا علی انت و شیعتك هم الفائزون وغیرہ اور ان صحابہ میں سے بنی ہاشم اور غیر بنی ہاشم سمیت پچاس ایسے صحابہ کرام کے نام آقا سبحانی نے اپنی کتاب الاضواء علی عقائد الشیعہ میں لکھے ہیں ۔اور فقط اسی موضوع پر لکھی گئی 5 کتابوں کے نام بھی درج کیے ہیں۔ یہ وہ شیعہ تھے جو امیرالمومنین علیہ السلام کے خواص میں سے تھے جیسے عبد اللہ بن عباس، عماربن یاسر، سلمان فارسی، ابوذر غفاری رضوان اللہ علیہم وغیرہ ۔تاہم تب تک یہ مذہب شیعہ کہ جو آج اس نام مرسوم ہے وہ ایک کلامی فرقہ کے طور پر نہیں تھا۔اور یہ خواص کا نام تھا عام بالکل نہیں تھا ۔

اسی لیے40 ہجری کے زمانے میں ا ہل عراق شیعیان علی معروف ہو گئے ،اور اہل شام شیعیان معاویہ کے نام سے ۔اور اسی اشتباہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تاریخ میں سرکاری مؤرخین نے کوفہ و اہل کوفہ میں موجود شیعوںکو بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔اور مسلسل منفی پروپیگنڈہ جاری رہا اور آج تک جاری ہے کہ حسین ع کو شیعوں نے مارا۔

یاد رہے کہ یہ لفظ شیعہ اس وقت شام میں موجود معاویہ کے چاہنے والوں کیلیے اور عراق میں علی کے چاہنے والوں کیلئے استعمال ہوتا تھا۔شامی شیعیان معاویہ کہلاتے تھے اور عراقی یا کوفی شیعیان علی کہلاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ شیعیان معاویہ کی اصطلاح ختم ہو گئی جبکہ شیعیان علی کی اصطلاح اختصاصی معنی اختیار کر گئی اور اسی اختصاص کی وجہ سے آہستہ آہستہ فقط شیعہ لفظ باقی رہ گیا کہ جسکا آج تک تبادر شیعیان علی کی طرف ہوتا ہے۔ اب تو اہل لغت نے بھی معاجم میں اس بات کو لکھا ہے۔

یہ جو اس زمانے میں عراقی یا کوفی جو شیعیان علی کے نام سے معروف تھے یہ آج کے امامی شیعہ اثنا عشری سے بالکل مختلف تھے ان میں سے آج کے شیعہ(بارہ امامی علی کو بلا فصل خلیفہ ماننے والے) تو آٹے میں نمک کے برابر تھے ۔باقی کوفیوں کی اکثریت شیعیان علی تو آج کے اہل سنت والا مسلک رکھتے تھے کہ جو علی ع کو چوتھا خلیفہ مانتے تھے۔

لہذا یہ جو معروف ہے کہ کوفہ میں شیعوں کی اکثریت تھی وہ یہی شیعہ آج کے اہل سنت حضرات یعنی علی ع کو چوتھا خلیفہ ماننے والے تھے۔البتہ پہلا خلیفہ ماننے والے بھی تھے تاہم بہت قلیل تعداد میں۔ اور امام حسین علیہ السلام کو بلانے والے فقط اصل شیعہ نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ وہ اکثریت شیعہ کی تھی جو آج کل اہل سنت کے نام سے معروف ہیں۔ان کے تمام ثبوت بحوالہ ذکر کئے جائیں گے۔

ب:شہر کوفہ کا بانی کون ؟

حموینی "معجم البلدان" مطبوعہ مصر اور علامہ شبلی نعمانی" الفاروق" جلد 2 صفحہ 85 پر لکھتے ہیں کہ کوفہ شہر 17 ھجری میں حضرت عمر نے آباد کیا۔ اسے ایک فوجی چھاؤنی بنایا ،خالص عرب نسل کے لوگ وہاں آباد تھے۔ اور ان کو وظائف دئیے کوفیوں کو حضرت عمر بہت پسند فرماتے تھے اسی لئے انکو خط لکھا: اے اہل کوفہ تم عرب کے سر اور دماغ ہو ،اور تم میرے وہ تیر ہو جن سے میں دوسروں کو نشانہ بناتا ہوں ۔ (طبقات ابن سعد کاتب واقدی جلد 6 صفحہ 3)

کوئی بھی تاریخ دیکھ لیجیے معلوم ہوگا اہل کوفہ کی اکثریت حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ چہارم تسلیم کرتی تھی جوکہ شیعہ عقیدہ نہیں ہے۔ جب کہ شیعہ جناب امیر علیہ السلام کو خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں(تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 189 مطبوعہ مصر سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مالک اشتر نے حضرت عثمان کے خلاف کچھ کہا تو اہل کوفہ ان کے خلاف ہو گئے۔ہمیں کسی معتبر تاریخ میں یہ بات نظر نہیں آتی کہ کوفہ میں علی ع کے شیعوں کی اکثریت تھی۔ بلکہ تاریخ میں وضاحت سے درج ہے کہ کوفہ شہر میں اکثریت حامیان عثمان کی تھی۔ اور اس شہر کا یہ حال تھا کہ ہر جگہ علی ع اور اولاد علی ع کو علانیہ گالیاں دی جاتی تھیں (ملاحظہ فرمائیں تاریخ طبری جلد 6 صفحہ 141 مطبوعہ مصر)

جب زیاد بن ابیہ گورنر کوفہ بنا تو اس نے تمام شیعیان علی کو قتل کیا یہاں تک کہ شیعیت بالکل آٹے میں نمک کے برابر نظر آنے لگی۔

ج:کوفہ میں شیعہ کشی۔

البدایہ والنھایہ جلد 3صفحہ 50،تاریخ کامل ابن اثیر جلد 3صفحہ 245، نصائح کافیہ صفحہ 70،استیعاب جلد 1،صفحہ 138اور طبری جلد 6،صفحہ 155۔۔

مندرجہ بالا حوالہ جات کو دیکھنے سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ عہد معاویہ میں علی علیہ السلام کے حبداروں سے کیا سلوک کیا گیا؟یہاں تک کہ ابن زیاد جب کوفہ کا حاکم مقرر ہوا تو اس نے ہانی بن عروہ(جو شیعہ تھے) سے یہ کہا:

يا هاني اما تعلم أن ابي قدم هذا البلد فلم يترك أحدا من هذا الشيعة إلا قتل غير أبيك وحجر وكان حجر ما ماتوا علمت(طبری مطبوعہ مصر جلد 6 صفحہ 202،تاریخ طبری فارسی مطبوعہ نولکشور لکھنؤ)

ترجمہ:اے ہانی کیا تم نہیں جانتے جب ہمارا باپ حاکم بن کر آیا تھا تو اس نے یہاں ایک شیعہ بھی نہیں چھوڑا تھا سوائے تمہارے باپ اور حجر بن عدی کے اور پھر جو حال حجر بن عدی کا کیا گیا وہ بھی تم جانتے ہو۔

ایسے حالات میں کوفہ میں شیعہ اکثریت میں باقی کیسے رہ سکتے تھے؟

تاریخ سے پوری طرح ثابت ہے کہ کوفہ میں شیعوں کی اکثریت قطعا نہیں تھی۔ عوام اہل کوفہ جو کہ اہل سنت کے اعتقاد کے مطابق اصحاب ثلاثہ کو بھی خلفا ءرسول ص مانتے تھے انہوں نے حکومت کی سختیوں اور ناروا مظالم سے تنگ آکر امام حسین علیہ السلام کو خطوط لکھے تھے۔ ان خطوط نویسوں میں ہر عقیدہ کے عوام و خواص سب شامل تھے ۔چونکہ شیعوں کو چن چن کر ختم کر دیا گیا تھا لہذا تناسب آبادی کے لحاظ سے ان دعوت دینے والے کوفیوں کی تعداد نمایاں طور پر غالب تھی جن کا مذہب شیعہ نہ تھا۔ البتہ کچھ لوگ خالص شیعہ بھی ضرور تھے جو موت کے منہ سے بچ نکلے تھے یہی وجہ ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہونے لگے تو حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت محمد بن حنفیہ جیسے بزرگوں نے امام کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ کوفہ کی بجائے یمن چلے جائیں کیونکہ یمن میں شیعیان علی کی اکثریت ہے کوفہ میں شیعہ اکثریت نہ تھی بلکہ زیادہ تر لوگ حضرت امیر علیہ السلام کے خلاف تھے۔

ہاں البتہ چند ایک لوگ وہ شیعہ ضرور تھے جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ۔اور انہوں نے اپنی وفا پر دھبہ نہیں لگنے دیا مثلا ھانی بن عروہ، محمد بن کثیر قیس بن مظہر الصیداوی،مسلم بن عوسجہ ،حبیب بن مظاہر وغیرہ۔

اور یہ جو محدود تعداد میں تھے ان میں سے بھی اکثریت کو ابن زیاد نے قید کر لیا تھا ،کچھ خوفزدہ ہو کر چھپ گئے ،کچھ مصلحت پسندی کا شکار ہو گئے اور بعض کو ایسے عظیم ظلم کی توقع نہ تھی ۔چنانچہ جب یہ داستان ظلم رقم ہو گئی تو بعد میں بیدار ہوئے اور انہوں نے پھر دنیا قاتلان حسین پہ تنگ کر کے رکھ دی اور ان کو چن چن کر قتل کیا کہ جن میں توابین کی تحریک اور مختار بن ابو عبید ثقفی کا قیام قابل ذکر ہے۔

اس سب سے بڑھ کر امام حسین علیہ السلام کے مختصر سے لشکر میں بھی اکثریت انہیں سچے کوفی شیعوں کی تھی جو ظالموں کے چنگل سے بھاگ کر کشتی نجات میں سوار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، وہ معروف شیعہ(سنی) تو لشکر یزید کے سردار تھے۔

بعض لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے کوفہ کو دارالحکومت بنانے کو اس بات کی دلیل سمجھتے ہیں کہ کوفہ میں شیعوں کی اکثریت تھی لیکن اس پر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا امام علی مذہب امامیہ کی تبلیغ کرتے تھے یا نہیں؟ اگر کہا جائے ہاں تو ثابت ہوا کہ مذہب امامیہ حق ہے کہ جسے علی نے پھیلایا اور اگر کہا جائے کہ نہیں تو پھر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ تبلیغ تو دوسرے مذہب کی ہو اور پھیلے مذہب شیعہ پس دونوں صورتیں یہ ثابت نہیں کرتیں کہ کوفہ والے اصلی شیعہ(علی کو پہلا خلیفہ ماننے والے) تھے ۔اور اگر بالفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ کوفہ میں شیعہ زیادہ تھے تو بھی جیسا کہ ثبوت کے ساتھ بیان ہوچکا زیاد اور ابن زیاد کی شیعہ کشی سے ثابت ہو جاتا ہے شیعیت کو اس شہر میں نیست و نابود کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا گیا۔

جہاں تک تعلق ہے توابین کے اقدام انتقام اور اس سلسلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا تو وہ ان لوگوں کی نیک نیتی کا بین ثبوت ہے۔ تاریخی طور پر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ توابین میں سے ایک شخص بھی واقعہ کربلا میں امام کے مقابل لشکر میں شریک تھا ۔اگر وہ خود ہی قاتل تھے تو پھر انتقام کس سے لے رہے تھے؟۔۔۔

اگر بالفرض کسی ظالم شخص کو ظلم کر لینے کے بعد احساس ظلم ہو سکتا ہے اور توبہ کا دروازہ کسی کیلیے بھی بند نہیں ہے تو بھی یہ کہیں سے ثابت نہ ہو سکے گا کہ انہوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا تھا ۔حالانکہ اگر ایسا ہو تب بھی مذھب امامیہ کیلئے نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ ندامت و پشیمانی اور توبہ مذموم افعال میں سے نہیں ہیں ۔اور ایسا ہو جانابھی اس بات ہی کا ثبوت ہو گا کہ مذہب شیعہ حق تھا اور اس کا مقابل باطل تھا تبھی تو باطل چھوڑ کر حق کی طرف آنا پڑا ۔جبکہ یہ بات کسی مستند حوالہ سے ثابت نہیں کہ قاتلان حسین نے رونا پیٹنا شروع کر دیا تھا حالانکہ یہ امر تفصیلی طور پر ثابت ہوچکا کہ عزاداری سنت رسول، سنت ائمہ طاہرین اور سنت انبیاء کرام ہے۔

المختصر تاریخ سے یہ بات مکمل طور پر ثابت ہے کہ اکثر کوفی لوگ غیر شیعہ( یعنی علی کو چوتھا خلیفہ ماننے والے یعنی موجودہ اہل سنت کے ہم مسلک ) تھے۔ اب آتے ہیں قاتلین امام حسین کے مذہب کی طرف۔۔۔۔

د:قاتلین امام حسین علیہ السلام کےمذہب کا تعارف ۔

1:عمر بن سعد اور اسکا مذہب:

جن لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کو ظلم و جور کے ساتھ شہید کرنے میں حصہ لیا ان میں کئی صحابی اور صحابہ کے بیٹے تھے مثلا عمر بن سعد برادران اہل سنت کے کے ہاں عشرہ مبشرہ میں سے سعد بن ابی وقاص صحابی کا بیٹا تھا اور واقعہ کربلا میں لشکر یزید کا سردار تھا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسے شام کے علاقے حمص کا گورنر مقرر کیا گیا تھا. اب ظاہر ہے کہ جس خلیفہ نے ابن سعد کو گورنر مقرر کیا وہ اسے خلیفہ ضرور مانتا تھا تبھی تو خلیفہ اسے معزز سمجھتے تھے جبکہ شیعہ حضرت علی کو خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں پس ثابت ہوا عمر بن سعد بلا فصل والا شیعہ نہ تھا۔

2:محمد بن اشعث بن قیس کندی کا مذہب:

قاتلین امام حسین میں سے ایک اور معروف نام محمد بن اشعث بن قیس کندی ہے یہ حضرت ابوبکر کا حقیقی بھانجا تھا ۔اسی کا باپ اشعث بن قیس امام علی علیہ السلام کے قتل میں شریک تھا ،اور اسی کی بیٹی جعدہ بنت اشعث نے امام حسن علیہ السلام کو زہر دیا تھا۔ اور یہ خود قتل امام میں ایک لشکر کا سربراہ تھا ۔ اور اسی طرح علی بن فرط انصاری اور ثمرہ بن جندب وغیرہ وغیرہ۔

3:شمر بن ذی الجوشن لعین کا مذہب:

اسی طرح قاتل امام حسین علیہ السلام شمر بن ذی الجوشن لعین کو شیعہ مذھب میں ملعون ومردود سمجھا جاتا ہے مگر ایسے شقی القلب کو کہ جس کے بارے رسول اللہ ص نے فرمایا کہ میرے حسین کا قاتل ڈبا کتا ہوگا (ملاحظہ فرمائیں طبقات ابن سعد، طبرانی شریف، خصائص کبری، ما ثبت بالسنہ، اور سر الشہادتین صفحہ 88)۔مذہب اہل سنت کے سب سے بڑے محدث امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں اس شقی انسان سے روایت نقل کر کے اپنی محبت کا ثبوت دیا ہے۔ اگر شمر شیعہ ہوتا تو پھر امام بخاری اس سے روایت کیوں لیتے؟اور اسے معتبر کیوں سمجھتے پس اب خود ہی اندازہ کر لیجیے کہ مظلوم امام کا قاتل کس مذہب کا راوی تھا ۔اور بخاری بعد از کلام باری کا درجہ کس مذہب میں سمجھا جاتا ہے؟

4:عبیداللہ بن زیاد (ابن مرجانہ ) کا مذہب:

عبیداللہ بن زیاد کا مذہب یہ تھا کہ وہ حضرت عثمان کو خلیفہ رسول، تقی ،زکی، مظلوم اور امیرالمومنین ہونے کا نہ صرف عقیدہ رکھتا تھا۔بلکہ اما م حسین علیہ السلام کو حضرت عثمان کی طرح کا پیاسا قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔

اہل سنت کے علامہ ابن جریر طبری اپنی تاریخ الرسل و الملوک میں اس طرح لکھتے ہیں کہ:

عبیداللہ بن زیاد کی جانب سے عمر بن سعد کے پاس تحریری حکم پہنچا کہ اما بعد۔حسین و اصحاب حسین اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ اور اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ پینے پائیں جیسا کہ تقی، زکی مظلوم، امیرالمومنین عثمان بن عفان سے کیا گیا(کتاب مذکورہ مع فرانسیسی ترجمہ جلد2 صفحہ 311،…)

مذہب امامیہ کی رو سے حضرت علی علیہ السلام کے سوا کوئی بھی امیرالمومنین نہیں ۔حتی کہ باقی آئمہ طاہرین علیہم السلام میں سے بھی کسی کو امیرالمومنین نہیں لکھتے۔ لیکن فوج یزید جس نے جنگ کربلا میں حصہ لیا یزید کو امیرالمومنین سمجھتی تھی کہ جو شیعہ عقیدہ کے خلاف ہے۔

[ پنجشنبه بیست و یکم تیر ۱۴۰۳ ] [ 1:0 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

http://www.payame-hagh.ir/post/308/%D8%A7%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%86-%D9%85%D8%AE%D8%A7%D9%84%D9%81-%D8%BA%D8%AF%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B2-%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%87-%D8%A7%D9%87%D9%84-%D8%B3%D9%86%D8%AA/

[ دوشنبه هجدهم تیر ۱۴۰۳ ] [ 22:18 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

http://www.payame-hagh.ir/post/308/%D8%A7%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%86-%D9%85%D8%AE%D8%A7%D9%84%D9%81-%D8%BA%D8%AF%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B2-%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%87-%D8%A7%D9%87%D9%84-%D8%B3%D9%86%D8%AA/


ادامه مطلب
[ دوشنبه هجدهم تیر ۱۴۰۳ ] [ 22:18 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
.: Weblog Themes By themzha :.

درباره وبلاگ

ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر
امکانات وب