|
Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ
| ||
|
http://islamtimes.org/ur/doc/article/698932/ ادامه مطلب [ دوشنبه پنجم دی ۱۴۰۱ ] [ 7:56 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
[ چهارشنبه نوزدهم خرداد ۱۴۰۰ ] [ 21:34 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
🌹 شجاعتِ حضرتِ عبّاسؑ 🌹 تاریخ نے شجاعتِ حضرتِ عبّاسؑ کو اس طرح نقل کیا ہے: کالجبل العظیم و قلبہ کا الّطود الجسیم لانّہ کان فارسا ہماما و بطلا ضرغاما و کان جسوراعلیٰ الطّعن والضرب فی میدان الکفّار۔ روایت میں ہے کہ جنگِ صفین میں ایک جوانِ نقابدار لشکرِ امیرالمؤمنینؑ سے نکلا، جس سے ہیبت اور شجاعت ظاہر ہوتی تھی جسکی عمر تقریبا سولہ سال ہوگی اور جنگ کرنے کے لیے مبارز طلب کرنے لگا معاویہ نے ابوشعثاء کو حکم دیا کہ جب لوگوں نے شجاعت کے اس ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کو میدان میں دیکھا تو کسی کی ہمّت نہ ہوئی کہ کوئی اس شجاع بے مثال کے مقابلہ میں جاتا وہ جوان اپنے لشکر کی طرف پلٹ گیا۔ اصحابِ امیرالمؤمنین حیرت زدہ تھے کہ یہ جوان کون ہے لیکن جب نقاب رخ سے ہٹی تو پتا چلا کہ قمرِ بنی ہاشم حضرتِ ابوالفضل العباسؑ ہیں۔(2) شجاعتِ حضرتِ عبّاسؑ کا اس روایت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ چیزیں جو اہلبیت کے لشکر سے لوٹی گئیں تھیں ان میں پرچمِ حضرت عبّاسؑ بھی تھا۔ جب یہ تمام اشیاء یزید کے سامنے پیش کی گئیں تو یزید کی نگاہ اس پرچم پر گئی وہ غور سے اس پرچم کو دیکھتا رہا اور تعجّب سے کبھی اٹھتا تھا، کبھی بیٹھتا تھا۔ کہا؛ عبّاسؑ برادرِ حسینؑ کے ہاتھ میں۔ پوچھا کیوں؟ 📚حوالہ جات؛ [ یکشنبه نهم شهریور ۱۳۹۹ ] [ 16:17 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
بات بات پہ جو کہتے ہیں کہ سائنس کی بنیاد ہم مسلمانوں نے رکھی پھر کفار نے ہماری کتب چوری کرکے ہمیں لارے لگایا اور خود ترقی کر گئے۔ مسلم سائنس دانوں کا جو حشرمسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخرسے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے۔ ان میں سے چار سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔ ابن رشد ابن سینا زکریاالرازی [ پنجشنبه شانزدهم مرداد ۱۳۹۹ ] [ 0:4 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
*ڈرامہ ارتغل حقاٸق سے خدشات تک * [ چهارشنبه هفتم خرداد ۱۳۹۹ ] [ 19:5 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
محمد بن قاسم کی حقیقت چچ نامہ کے مطابق جب رائے داہر قتل ہوگیاتو محمد بن قاسم نے شاہی خاندان کی تمام مستورات کو اپنے محل میں رکھا ہوا تھا، سلیمان بن عبدالملک نے حکومت سنبھالتے ہی محمد بن قاسم سے شاہزادیوں کا تحفہ مانگا۔محمد بن قاسم نے حکم ملتے ہی یہ تحفہ اپنے حاکم سلیمان بن عبدالملک کی خدمت میں بھیج دیا۔ http://voiceofnation.blogfa.com/post/1292 [ شنبه بیست و هفتم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 18:44 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
حضرت ابوطالب 🕋 *ابو طالب علیہ السلام* 🕋 عبد مَناف بْن عَبْدُالْمُطلب بن ہاشم جو ابوطالب کے نام سے مشہور ہیں، امام علیؑ کے والد، پیغمبر اسلامؐ کے چچا اور مکہ میں قبیلہ بنی ہاشم کے سردار تھے۔ کچھ عرصے کے لئے آپ سقایۃ الحاج کے عہدے پر فائز رہے اور اپنے والدعبدالمطلب کی وفات کے بعد حضرت محمدؐ کی سرپرستی قبول کی اور حضرت محمدؐ کی جانب سے نبوت کے اعلان کے بعد ان کی مکمل حمایت کی۔ آپ کا اسلام لانا او نہ لانا شیعہ اور بعض اہل سنت کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ہے۔ آپ کے ایمان لانے پر بہت سارے تاریخی اور حدیثی قرائن و شواہد موجود ہیں۔ آپ کی طرف بعض اشعار اور قصاید کی نسبت دی گئی ہے جن کا مجموعہ دیوان ابوطالب کہا جاتا ہے۔ آپ بعثت کے دسویں سال 26 رجب کو وفات پائے اور قبرستان حجون میں سپر خاک کئے گئے۔ ♦ *نسب اور ولادت* آپ کا نسب عبد مناف بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب ہے۔ آپ اپنی کنیت ابوطالب کے نام سے مشہور تھے۔[1] ابن عنبہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں جس میں آپ کو عمران کے نام سے یا کیا گیا ہے۔[2] حضرت محمدؐ کی ولادت سے 35 سال پہلے آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کے والد عبدالمطلب جو پیغمبر اکرمؐ کے جد امجد بھی ہیں، تمام مورخین انہیں عرب قبائل کا سردار اور ادیان ابراہیمی کے مبلغ اعظم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔آپ کی والدہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ مخزومی ہیں۔[3] ابوطالب اور پیغمبر اکرمؐ کے والد عبداللہ سگے بھائی تھے۔[4] 🔷 *زوجہ اور اولاد* حضرت ابوطالب کو الله نے ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسدکے بطن سے چار بیٹے: طالب، عقیل، جعفر اور حضرت علیؑعطا کئے۔ بعض مآخذ میں ام ہانی (فاخِتہ) اور جُمانَہ کو آپ کی بیٹی قرار دی گئی ہیں۔[5] بعض دیگر مآخذ میں آپ کی ایک اور بیٹی رَیطَہ (أسماء) کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ اسی طرح "طُلَیق" کے نام سے ایک اور بیٹے نیز "عَلَّہ" کے نام سے ایک اور زوجہ کا بھی نام لیا جاتا ہے۔[6] 🔻 *سماجی منزلت، پیشے اور مناصب* ابو طالبؑ مکہ میں حجاج کی رفادت (میزبانی) اور سقایت (آب رسانی) کے مناصب پر فائز تھے۔[7] وہ تجارت سے بھی منسلک تھے اور عطریات اور گندم کی خرید و فروخت کرتے تھے۔[8] امیرالمؤمنینؑ سے منقولہ ایک حدیث ـ نیز مؤرخین کے اقوال کے مطابق ـ حضرت ابو طالبؑ تہی دست ہونے کے باوجود قریش کے عزیز اور بزرگ تھے اور ہیبت و وقار اور حکمت کے مالک تھے۔[9]۔[10] ابو طالبؑ کی فیاضی اور جود و سخا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "جس دن وہ لوگوں کو کھانے پر بلاتے قریش میں سے کوئی بھی کسی کو کھانے پر نہیں بلاتا تھا۔[11] ابو طالبؑ نے سب سے پہلے عصر جاہلیت میں حلف اور قسم کو، مقتول کے وارثوں کی شہادت میں، لازمی قرار دیا اور اسلام نے اس کی تائید و تصدیق کی۔[12] حلبی کہتے ہیں: ابو طالبؑ نے اپنے والد ماجد حضرت عبد المطلب بن ہاشمؑ کی مانند شراب نوشی کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔[13] ♦ *رسول اکرمؐ کی کفالت اور سرپرستی* ابو طالبؑ نے اپنے والد کی ہدایت پر اپنے آٹھ سالہ بھتیجے حضرت محمدؐ کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا۔[14] ابن شہرآشوب کہتے ہیں: جناب عبد المطلب نے وقت وصال ابو طالبؑ کو بلوایا اور کہا: "بیٹا! تم محمدؐ کی نسبت میری محبت کی شدت سے آگاہ ہو، اب دیکھونگا کہ ان کے حق میں میری وصیت پر کس طرح عمل کرتے ہو"۔ ابو طالبؑ نے جوابا کہا:"ابا جان! مجھے محمدؐ کے بارے میں سفارش کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ میرا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے۔ ابن شہر آشوب مزید کہتے ہیں: "عبد المطلبؑ" کا انتقال ہوا تو ابو طالبؑ نے رسول خداؐ کو کھانے پینے اور لباس و پوشاک میں اپنے اہل خانہ پر مقدم رکھا۔[15] ابن ہشام لکھتے ہیں: "ابو طالبؑ رسول خداؐ کو خاص توجہ دیتے تھے؛ اور آپؐ پر اپنے بیٹوں سے زیادہ احسان کرتے تھے، بہترین غذا آپؐ کے لئے فراہم کرتے تھے اور آپؐ کا بستر اپنے بستر کے ساتھ بچھا دیتے تھے اور ان کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے"۔[16] ابو طالبؑ جب بھی اپنے بیٹوں بیٹیوں کو کھانا کھلانے کے لئے دسترخوان بچھاکر کہا کرتے تھے کہ "رک جاؤ کہ میرا بیٹا (رسول خداؐ) آ جائے۔[17] 🔷 *رسول اللہؐ کے حامی و پشت پناہ* ابوطالب کے اشعار کا ایک نمونہ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّا وَجَدْنَا مُحَمَّدًا نَبِیا کمُوسَی خُطَّ فِی أَوَّلِ الْکتُبِ وَأَنَّ عَلَیهِ فِی الْعِبَادِ مَحَبَّةً وَلَا خَیرَ مِمَّنْ خَصَّهُ اللَّهُ بِالْحُبِّ کیا نہیں جانتے ہم نے حضرت محمدؐ کو حضرت موسی کی طرح پیغمبر پایا اور ان کا نام اور ان کی نشانی آسمانی کتابوں میں آیا ہے، خدا کی مخلوقات کو ان سے ایک خاص محبت ہے، اور جس کی محبت خدا نے لوگوں کے دلوں میں ودیعت کی ہے اس پر ستم روا نہیں کیا جا سکتا۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفہ، ج۱، ص۳۵۲. تاریخی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو طالبؑ نےقریش کے دباؤ، سازشوں دھونس دھمکیوں اور ان کی طرف لاحق خطرات کے مقابلے میں رسول اکرمؐ کے بےشائبہ اور بےدریغ حمایت جاری رکھی۔ گوکہ ابو طالبؑ کی عمر رسول اللہؐ کی بعثت کے وقت پچھتر برس ہوچکی تھی، تاہم انھوں نے ابتداء ہی سے آپؐ کی حمایت و ہمراہی کو ثابت کر دکھایا۔ انھوں نے قریش کے عمائدین کے سے باضابطہ ملاقاتوں کے دوران رسول اللہؐ کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کا اعلان کیا۔[18] یعقوبی کے مطابق یہ حمایت اور محبت اس حد تک تھی کہ جناب ابو طالبؑ اور ان کی زوجہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت اسد(س) رسول اللہؐ کے لئے ماں باپ کی صورت اختیار کرگئے تھے۔[19] قریش نے ابوطالب کو عمارہ بن ولید مخزومی جو ایک خوبصورت اور طاقتور جوان تھا کو اپنا لے پالک بیٹا بنانے کی پیشکش کی جس کے مقابلے میں وہ محمدؐ کو ان کے حوالے کر دیں؛ لیکن ابوطالب نے ان کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے ان کی سرزنش کی۔[20] پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب کے وفات کے وقت فرمایا: جب تک ابوطالب بقید حیات تھے قریش مجھ سے خوف محسوس کرتے تھے۔[21]شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ جس دن ابوطالب کی وفات ہوئی جبرئیل پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئے اور کہا: مکہ سے باہر نکلو کیونکہ اب اس میں آپ کا کوئی حامی اور مددگار نہیں رہا۔[22] 🌹 *ایمان ابی طالب*🌹 شک نہیں کہ ابو طالبؑ رسول خداؐ کے سرپرست اور اور دشوار ترین ایام میں آپؐ کے حامی تھے لیکن آپ کا ایمان لانا اور نہ لانا شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مورد بحث رہا ہے۔ شیعیان اثنا عشری ابو طالبؑ کے ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے پر یقین کامل رکھتے ہیں اور علمائے شیعہ ائمۂ اہل بیتؑ کی روایات کی روشنی میں ان کے ایمان پر اجماع رکھتے ہیں۔[24] لیکن اس کے مقابلے میں بعض علمائے اہل سنت کا خیال ہے کہ ابو طالبؑ شریعت اسلام پر ایمان نہیں لائے اور حالت شرک میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔[25] البتہ بعض اہل سنت نے شیعہ کی حمایت میں مستقل ایمان ابوطالب پر کتابیں لکھی ہیں ۔ ⚫ *وفات اور عام الحزن* ابوطالب کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ شیخ طوسی 26 رجب دسویں بعثت کو روز وفات سمجھتے ہیں[26]یعقوبی ماہ رمضان میں حضرت خدیجہ کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ابوطالب کی وفات کو حضرت خدیجہ کی وفات کے تیسرے دن قرار دیتے ہیں اور وفات کے وقت آپ کی عمر 86 یا 90 سال بتاتے ہیں[27] بعض مورخین 1 ذی القعدہ اور بعض 15 شوال کو آپ کا یوم وفات قرار دیتے ہیں۔[28] آپ کی وفات کے دن پیغمبر اکرمؐ نے سخت گریہ فرمایا اور حضرت علیؑ کو غسل و کفن دینے کا حکم دیا اور آپؐ نے ان کے لئے طلب رحمت کی دعا کی۔[29] جب حضرت محمدؐ حضرت ابوطاب کے دفن کی جگہ پہنچے تو فرمایا: اس طرح آپ کی مغفرت اور شفاعت کے لئے دعا کرونگا کہ جن و انس حیران رہ جائے۔[30] آپ کے جسد خاکی کو مکہ میں آپ کے والد گرامی عبدالمطلب کے ساتھ قبرستان حُجون میں سپرد خاک گیا گیا۔[31] 😭پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ(س)کی وفات کے سال کو عامُ الحُزْن کا نام دیا۔[32] http://t.me/safeina 📖 *حوالہ جات* ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۲۸۸؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۲۱. [ دوشنبه پانزدهم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 14:1 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
حضرت خدیجه پیرولی: 🔅 این حدیث در کتابهای حدیثی شیعه و اهل سنت آمده که رسول خدا-صلی الله علیه و آله-فرموده: 🔅 در حدیث دیگری که ابن حجر در کتاب الاصابه و دیگران از ابن عباس روایت کرده اند اینگونه است که گوید: رسول خدا(ص) چهار خط روی زمین ترسیم کرده آنگاه فرمود: 🔅 از عایشه روایت کرده اند که گوید: هیچگاه نمی شد که رسول خدا از خانه بیرون رود جز آنکه خدیجه را یادمی کرد و ستایش و مدح او را می نمود، تا اینکه روزی طبق همان شیوه ای که داشت نام خدیجه را برد و او را یاد کرد، دراین وقت رشک و حسد مرا گرفت و گفتم: 🔅 در روایت اربلی در کشف الغمه اینگونه است که علی علیه السلام فرمود: روزی نزد رسول خدا (ص) نام خدیجه سلام الله علیها برده شد و رسول خدا (ص) گریست. عایشه که چنان دید گفت: 🔅 در حدیثی که عیاشی در تفسیر خود از ابی سعید خدری روایت کرده اینگونه است که رسول خدا(ص) فرمود: در شب معراج هنگامی که بازگشتم به جبرئیل گفتم: آیا حاجتی داری؟ گفت: ✅ و بالاخره خدیجه سلام الله علیها همان بانوی بزرگوار است که به اجماع اهل تاریخ نخستین زن و یا نخستین انسانی است که به رسول خدا(ص) ایمان آورد... و وسیله آرامشی برای آن حضرت در برابر طوفانهای حوادث سهمگین و اندوه های فراوان آغاز رسالت بود... [ دوشنبه پانزدهم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 0:8 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
|
||
| [قالب وبلاگ : تمزها] [Weblog Themes By : themzha.com] | ||