Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ 
پيوندهای روزانه

http://islamtimes.org/ur/doc/article/698932/
تاریخ بشریت میں چند خواتین ایسی آئی ہیں، جنہوں نے تاریخ رقم کی ہے۔ جناب مریم، جناب آسیہ، جناب خدیجہ، جناب فاطمۃ الزہراء کے بعد حضرت زینب ؑہی وہ عظیم ہستی ہیں کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج تک آپ کا کوئی ثانی نہیں۔


ادامه مطلب
[ دوشنبه پنجم دی ۱۴۰۱ ] [ 7:56 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

علمائے حق


برچسب‌ها: علمائے حق
ادامه مطلب
[ چهارشنبه نوزدهم خرداد ۱۴۰۰ ] [ 21:34 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

🌹 شجاعتِ حضرتِ عبّاسؑ 🌹

تاریخ نے شجاعتِ حضرتِ عبّاسؑ کو اس طرح نقل کیا ہے: کالجبل العظیم و قلبہ کا الّطود الجسیم لانّہ کان فارسا ہماما و بطلا ضرغاما و کان جسوراعلیٰ الطّعن والضرب فی میدان الکفّار۔
ترجمہ:
وہ بلندی میں کوہِ عظیم کی مانند، قوّت میں ان کا قلب بلند و وسیع پہاڑ کی طرح شجاعِ بے مثال، شیرِ ضرغام تھے۔ جنگ میں کفار ہمّت اور مردانگی کی داد دیتے تھے(1)

روایت میں ہے کہ جنگِ صفین میں ایک جوانِ نقابدار لشکرِ امیرالمؤمنینؑ سے نکلا، جس سے ہیبت اور شجاعت ظاہر ہوتی تھی جسکی عمر تقریبا سولہ سال ہوگی اور جنگ کرنے کے لیے مبارز طلب کرنے لگا معاویہ نے ابوشعثاء کو حکم دیا کہ
جنگ کرے ابوشعثاء نے کہا؛ شام کے لوگ مجھے ہزار سوار کے برابر سمجھتے ہیں میرے سات بیٹے ہیں، میں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں وہ اس کا کام تمام کر دیگا، اور اس نے اپنے ایک بیٹے کو بھیجا لیکن وہ قتل ہوگیا۔ اسیطرح اس نے اپنے ساتوں بیٹوں کو بھیجا اور سب قتل ہوتے رہے۔
ابوشعثاء نے جب یہ دیکھا، دنیا اسکی نظر میں تاریک ہوگئی وہ خود بھی میدان میں آیا اور وہ بھی جہنم واصل ہوا۔

جب لوگوں نے شجاعت کے اس ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کو میدان میں دیکھا تو کسی کی ہمّت نہ ہوئی کہ کوئی اس شجاع بے مثال کے مقابلہ میں جاتا وہ جوان اپنے لشکر کی طرف پلٹ گیا۔ اصحابِ امیرالمؤمنین حیرت زدہ تھے کہ یہ جوان کون ہے لیکن جب نقاب رخ سے ہٹی تو پتا چلا کہ قمرِ بنی ہاشم حضرتِ ابوالفضل العباسؑ ہیں۔(2)

شجاعتِ حضرتِ عبّاسؑ کا اس روایت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ چیزیں جو اہلبیت کے لشکر سے لوٹی گئیں تھیں ان میں پرچمِ حضرت عبّاسؑ بھی تھا۔ جب یہ تمام اشیاء یزید کے سامنے پیش کی گئیں تو یزید کی نگاہ اس پرچم پر گئی وہ غور سے اس پرچم کو دیکھتا رہا اور تعجّب سے کبھی اٹھتا تھا، کبھی بیٹھتا تھا۔
کسی نے سوال کیا؛ امیر کیا ہوا کہ اس طرح مبہوت اورحیرت زدہ ہو؟
یزید نے پوچھا؛ یہ پرچم کربلا میں کس کے ہاتھ میں تھا؟

کہا؛ عبّاسؑ برادرِ حسینؑ کے ہاتھ میں۔
یزید کہتا ہے کہ؛ مجھے تعجّب اس علمبردار کی شجاعت پر ہے۔

پوچھا کیوں؟
کہا؛ دیکھو پورا پرچم حتیّٰ اس کی لکڑی پر تیروں اور دوسرے اسلحوں کے نشانات ہیں صرف اس ایک جگہ کے جہاں سے اس کو پکڑ ا گیا ہے یہ جگہ کاملا محفوظ ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ تیر اور دوسرے اسلحے اس جگہ بھی لگے لیکن اس بہادر نے عَلَم کو اپنے ہاتھ سے رہا نہیں کیا، آخری وقت تک اس پرچم کی حفاظت کرتا رہا، جب اسکا ہاتھ گرا تب پرچم گرا۔

📚حوالہ جات؛
1۔ خصایص العباسیہ ص 118 و 119۔
2۔ فرسان الھیجاء، ج1، ص10193۔ چہرۂ درخشان قمر بنی ہاشم ابوالفضل العبّاس ص190۔

[ یکشنبه نهم شهریور ۱۳۹۹ ] [ 16:17 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

بات بات پہ جو کہتے ہیں کہ سائنس کی بنیاد ہم مسلمانوں نے رکھی پھر کفار نے ہماری کتب چوری کرکے ہمیں لارے لگایا اور خود ترقی کر گئے۔

‏مسلم سائنس دانوں کا جو حشرمسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخرسے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے۔ ان میں سے چار سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔ 
‏یعقوب الکندی
فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین ‏عوام قہقہہ لگاتے تھے۔

ابن رشد
یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے ‏آخری دن ذلت اورگمنامی کی حالت میں بسر کیے۔

ابن سینا
جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی ‏گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔

زکریاالرازی
عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح ‏باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔

[ پنجشنبه شانزدهم مرداد ۱۳۹۹ ] [ 0:4 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

*ڈرامہ ارتغل حقاٸق سے خدشات تک *
تحریر : محمد بشیر دولتی
حصہ ب
*دولت عثمانیہ کے مظالم*
مسلم حکمرانوں میں تیس سالہ خلافت راشدہ کے بعد امیر شام سے ملوکیت  کا آغاز ہوا۔{حوالہ خلافت و ملوکیت۔مولانا مودودی}
تین بڑے قابل ذکر حکمران بنی امیہ بنی عباس اور سلطنت عثمانیہ ہے۔
بنی امیہ نے معاویہ بن ابی سفیان سے {41 ہجری سے 61 ہجری تک } تا مروان بن محمد 132ھ سے 127 ھ تقریبا سو سال تک حکومت کی۔
* بنی عباس* نے الصفاح 721 عیسوی سے لے کر مستعصم باللہ کی 1258 تک حکومت کی ۔
پھر ترک عثمانیوں نے 1291 سے 1924 تک تقریبا ساڑھے چھے سو سال حکومت کی۔
مگر تاریخ شاہد ہے کہ ان تمام حکمرانوں نے طول تاریخ میں جتنا شیعوں پہ ظلم کیا اتنا کسی پہ نہیں کیا۔نہ فقط بنی امیہ نے مظالم کے پہاڑ ہم پہ توڑے بلکہ آل رسول کے نام پہ آنے والے بنی عباس بھی ان سے پیچھے نہ رہے ڈرامہ ارتغل میں دکھنے والے رحم دل اور عادل حکمراں ارتغل اور عثمان ممکن ھے شروع میں بنی عباس کی طرح کچھ عرصہ یہ لوگ اچھے رہے ہوں مگر وقت کہ ساتھ ساتھ ان حکمرانوں کہ تیور  بھی انتہائی ظالمانہ و جابرانہ ہوگٸے تھے۔
سولہویں صدی عیسوی میں بیشتر عرب ممالک سلطنت عثمانیہ کے زیر تسلط آگٸے تھے۔ سلطان سلیم عثمان نے جب شام ،حجاز اور مصر کو فتح کیا تو نام نہاد علما ٕ سے شیعوں کے واجب القتل ہونے کا فتوای لیا یوں شیعوں کا قتل عام شروع کیا۔جبل عامل میں شیعوں کے نہ فقط کتاب خانے لوٹ لیے بلکہ ان کتابوں سے لکڑی کی جگہ حمام گرم کیے گٸے۔ایرانی صفویوں کے ساتھ جنگ ”چالدران“ کے بعد اناطولیہ میں چالیس سے لے کر ستر ہزار تک شیعوں کا قتل عام کیا گیا۔
{حوالہ۔خضری۔البلاد العربیة والدولة العثمانیہ}
شیخ نوح حنفی کے فتوای کے بعد حلب میں ہزاروں شیعہ قتل اور ہزاروں شہر بدر ہوۓ۔
اس زمانے میں عظیم شیعہ علما ٕ بے وجہ زندانوں میں ڈالے گٸے انتہاٸی بےدردی سے قتل کیا ، زبانیں گدی سے کھینچی گئیں پھر مصلوب بھی کیا گیا شھید اول شھید  ثانی شھید شھاب الدین سھروردی جیسے جید فقہا ٕ و دانشور انہی شھدا ٕ میں  شامل ہیں۔
*ڈرامہ سیریٸل ارتغل اور موجودہ ترکی*
دیکھا جاۓ تو پاکستان میں ایک طبقہ سعودی حکمرانوں کی یہود و ہنود سے دوستی عیاشی  اور لبرل ازم و فحاشی  کی طرف بڑھتے ہوے رجحان کے سبب سعودی عرب سے متنفر ہورہاہے ان کا جھکاٶ اب ترکی کی جانب ہے۔ترکی اور اردوغان کو عالم اسلام کا مدافع اور سربراہ کی نظر سے دیکھ رہاہے۔یہی گروہ کشمیر و فلسطین کے بارے میں اردوغان سے منسوب بڑے بڑے بیانات منتشر کرتاہے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یہی ترکی ہے جو افغانستان و عراق اور لیبیا کو اجاڑنے والی نیٹو کا اتحادی ہے۔تقریبا 1999 سے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے ہاتھ پیر مار رہا ہے ۔
اسراٸیل کے وجود میں آنے سے ایک سال بعد ہی ترکی نے اسے قبول کیا تھا ابھی تک اسراٸیل کے ساتھ مثالی سفارتی تعلقات قاٸم ہیں۔اسی خلیفہ اردوغان نے
2005 میں اسراٸیل کا دورہ کیا تھا۔2007 میں اسراٸیلی صدر شمعون نے ترکی کا دورہ کیا تو اس ظالم کا پرتپاک استقبال کیا  اور ترک پارلیمنٹ سے خطاب بھی کروایا۔
9 مٸی 2018 کو انقرہ میں ظالم جابر و قابض اسراٸیل کے قیام کے 70 سال پورے ہونے پرزبردست جشن کا اہتمام کیا گیا۔2018 میں ہی ترکی اسراٸیل کے درمیان 6 ارب ڈالرز کی تجارت ہوئی ۔ اسی سال تین لاکھ بیس ہزار اسراٸیلیوں نے ترکی کا دوستانہ سفر کیا۔
بشارالاسد حکومت گرانے کے لیے امریکہ سعودیہ اسراٸیل وغیرہ کے ساتھ مل کر داعش کی بنیاد رکھی۔داعش خطرناک اسراٸیلی و امریکی جدید اسلحوں اور بھاری ٹینکوں اور دیگر بڑی گاڑیوں کے ساتھ براستہ ترکی شام میں داخل ہوا۔یہ وہ چند تلخ حقاٸق ہیں جنہیں کوٸی عالمی حالات سے باخبر  باشعور  انسان رد نہیں کر سکتا۔موجودہ ترکی اور اردوغان کی ان کرتوتوں کو دیکھ کر جب میں ارتغل ڈرامہ  دیکھتا ہوں تو مجھے اردوغان میں کردوغلو اور سعدتین کو پیک نظر آتے ہیں ۔آنکھیں بند کر کے اردوغان کے گن گانے والے جذباتی نوجوانوں کو جب دیکھتا ہوں تو مجھے ڈرامہ  ارتغل میں  کماندار ”گونالپ“ یاد آتا ہے۔ جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اصل دشمن کون ہیں اور اس کی اصل وفاداری کس کے ساتھ ہونی چاہیے ۔
بے شک ڈرامہ ارتغل اک ڈرامہ ہی  نہیں اک  شاہکار ہے۔ ہر کردار انتہائی معیار و کمال کا کردار ہے۔نوجوان اسے ضرور دیکھیں پھر عثمانی دور سے نکل کر موجودہ دور میں آٸیں اور ڈھونڈیں اس وقت  ارتغل غازی کا کردار کون ادا کر رہا ہے اور کردوغلو ، کاراتاٸیگر ، ناصر ، کوجاباش ، مھرالدین ، الباسطی جیسے غدار کون کون ہیں؟
*آخری بات*
ہم وزیر اعظم عمران خان کے اس فیصلے کو سراہتے ہیں کہ انھوں نے ڈرامہ ارتغل کے ذریعے نہ صرف پی ٹی وی کے معیار کو بلند کیا بلکہ ایک شاٸستہ و مہذب ڈرامہ سیریل کا تخفہ دیا ۔اگر آپ واقعی سلطنت عثمانیہ سے مخلص ہیں تو ”لارنس آف عربیہ“ بھی دکھاٸیں تاکہ پتہ تو چلے اتنی بڑی مسلم سلطنت کو کن لوگوں نے زمین بوس کردیا؟ اگر آپ قوم کو مہذب تفریحی فلم کے ساتھ انبیا ٕ ع کے حالات زندگی اور دینی تاریخ سے آشنا کرانا چاھتے ہیں تو ایرانی فلم ”حضرت محمد ص“  ”حضرت یوسف ع“ ”حضرت سلیمان ع“ ”اصحاب کھف اور اس جیسی دیگر فلمیں بھی دکھاٸیں۔اگر آپ آوارہ گردی کرتے جوانوں کو سلجھا کر کشمیر کے لیے ذہن سازی کرنا چاھتے ہیں تو ایرانی فلم ”اخراجیھا “ دکھاٸیں۔اگر  فقط  معیاری اقدار انسانی پہ مشتمل فلم دکھانا چاھتے ہیں تو کورین فلم ”جمونگ“ بھی دکھاٸیں۔۔ 
اور اگر آپ ترکی کے لیے شام اور لیبیا میں لڑنے کے لیے جذباتی جنگجو نوجوانوں کا لشکر تیار کرنا چاھتے ہیں تو  ”ارتغل“ پہ ہی اکتفا کیجیے۔ البتہ امید ہے کہ آپ یو ٹرن لے کر سعودیہ کی ” مملکت النار“ نہیں دکھاٸیں گے ان شا اللہ۔
{برادران  ڈرامہ سیریٸل ارتغل دیکھیں مگر حقیقت جان کر}

[ چهارشنبه هفتم خرداد ۱۳۹۹ ] [ 19:5 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

محمد بن قاسم کی حقیقت

چچ نامہ کے مطابق جب رائے داہر قتل ہوگیاتو محمد بن قاسم نے شاہی خاندان کی تمام مستورات  کو اپنے محل میں رکھا ہوا تھا، سلیمان بن عبدالملک نے حکومت سنبھالتے ہی  محمد بن قاسم سے شاہزادیوں کا تحفہ مانگا۔محمد بن قاسم نے  حکم ملتے ہی یہ تحفہ اپنے حاکم سلیمان بن عبدالملک  کی خدمت میں بھیج دیا۔ 
 خلیفہ بہت بے تاب تھا، جیسے ہی قافلہ پہنچا تو اس نے  انہیں اپنے حرم میں شامل کرنے کی خوشخبری سنائی اور کہا کہ یہ ہم امویوں کی  رواداری ہے کہ ہم محکوم قوموں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آتے ہیں، اس پر برہمن شاہزادیوں نے  کہا کہ  اس نیک کام میں محمد ابن قاسم  جیسا پارسا اور متقی گورنر،  بادشاہ سلامت پر سبقت لے چکا ہے۔ لہذا اب وہ  خلیفہ کے لائق نہیں ہیں،  بادشاہ سلامت  کا  نیک دل  اور متقی گورنر محمد بن قاسم  پہلے ہی انہیں  اپنی صحبت کا یہ شرف عطا کر چکا ہے اور انہیں اپنے اہلِ حرم ہونے کے  اعزاز سے نواز چکا ہے۔  ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بادشاہ اس کارِ خیر میں سبقت لینے پر محمد ابن قاسم کو سراہتا لیکن شاہزادیوں کے  اس انکار کو خلیفہ نے اپنی اہانت اور توہین سمجھا، اس نے   شاہزادیوں کو زندہ حالت میں دیوار میں چنوا دیا اور زید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بناکر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم  کو گدھے کی کھال میں بند کر کے میری طرف بھیجو ۔بادشاہ کے حکم پر عمل کیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ بیل کی کھال میں دم گھُٹنے سے راستے ہی میں  محمد بن قاسم  کی موت واقع ہو گئی۔  جب کہ بعض مورخین کے مطابق  ۔۔۔
مکمل  پڑھنے کیلئے کلک کریں👇

http://voiceofnation.blogfa.com/post/1292

[ شنبه بیست و هفتم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 18:44 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

حضرت ابوطالب

🕋 *ابو طالب علیہ السلام* 🕋

عبد مَناف بْن عَبْدُالْمُطلب بن ہاشم جو ابوطالب کے نام سے مشہور ہیں، امام علیؑ کے والد، پیغمبر اسلامؐ کے چچا اور مکہ میں قبیلہ بنی ہاشم کے سردار تھے۔ کچھ عرصے کے لئے آپ سقایۃ الحاج کے عہدے پر فائز رہے اور اپنے والدعبدالمطلب کی وفات کے بعد حضرت محمدؐ کی سرپرستی قبول کی اور حضرت محمدؐ کی جانب سے نبوت کے اعلان کے بعد ان کی مکمل حمایت کی۔

آپ کا اسلام لانا او نہ لانا شیعہ اور بعض اہل سنت کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ہے۔ آپ کے ایمان لانے پر بہت سارے تاریخی اور حدیثی قرائن و شواہد موجود ہیں۔ آپ کی طرف بعض اشعار اور قصاید کی نسبت دی گئی ہے جن کا مجموعہ دیوان ابوطالب کہا جاتا ہے۔ آپ بعثت کے دسویں سال 26 رجب کو وفات پائے اور قبرستان حجون میں سپر خاک کئے گئے۔

♦ *نسب اور ولادت*

آپ کا نسب عبد مناف بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب ہے۔ آپ اپنی کنیت ابوطالب کے نام سے مشہور تھے۔[1] ابن عنبہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں جس میں آپ کو عمران کے نام سے یا کیا گیا ہے۔[2] حضرت محمدؐ کی ولادت سے 35 سال پہلے آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کے والد عبدالمطلب جو پیغمبر اکرمؐ کے جد امجد بھی ہیں، تمام مورخین انہیں عرب قبائل کا سردار اور ادیان ابراہیمی کے مبلغ اعظم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔آپ کی والدہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ مخزومی ہیں۔[3] ابوطالب اور پیغمبر اکرمؐ کے والد عبداللہ سگے بھائی تھے۔[4]

🔷 *زوجہ اور اولاد*

حضرت ابوطالب کو الله نے ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسدکے بطن سے چار بیٹے: طالب، عقیل،‌ جعفر اور حضرت علیؑعطا کئے۔ بعض مآخذ میں ام ہانی (فاخِتہ) اور جُمانَہ کو آپ کی بیٹی قرار دی گئی ہیں۔[5] بعض دیگر مآخذ میں آپ کی ایک اور بیٹی رَیطَہ (أسماء) کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ اسی طرح "طُلَیق" کے نام سے ایک اور بیٹے نیز "عَلَّہ" کے نام سے ایک اور زوجہ کا بھی نام لیا جاتا ہے۔[6]

🔻 *سماجی منزلت، پیشے اور مناصب*

ابو طالبؑ مکہ میں حجاج کی رفادت (میزبانی) اور سقایت (آب رسانی) کے مناصب پر فائز تھے۔[7] وہ تجارت سے بھی منسلک تھے اور عطریات اور گندم کی خرید و فروخت کرتے تھے۔[8]

امیرالمؤمنینؑ سے منقولہ ایک حدیث ـ نیز مؤرخین کے اقوال کے مطابق ـ حضرت ابو طالبؑ تہی دست ہونے کے باوجود قریش کے عزیز اور بزرگ تھے اور ہیبت و وقار اور حکمت کے مالک تھے۔[9]۔[10]

ابو طالبؑ کی فیاضی اور جود و سخا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "جس دن وہ لوگوں کو کھانے پر بلاتے قریش میں سے کوئی بھی کسی کو کھانے پر نہیں بلاتا تھا۔[11]

ابو طالبؑ نے سب سے پہلے عصر جاہلیت میں حلف اور قسم کو، مقتول کے وارثوں کی شہادت میں، لازمی قرار دیا اور اسلام نے اس کی تائید و تصدیق کی۔[12]

حلبی کہتے ہیں: ابو طالبؑ نے اپنے والد ماجد حضرت عبد المطلب بن ہاشمؑ کی مانند شراب نوشی کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔[13]

♦ *رسول اکرمؐ کی کفالت اور سرپرستی*

ابو طالبؑ نے اپنے والد کی ہدایت پر اپنے آٹھ سالہ بھتیجے حضرت محمدؐ کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا۔[14]

ابن شہرآشوب کہتے ہیں: جناب عبد المطلب نے وقت وصال ابو طالبؑ کو بلوایا اور کہا:

"بیٹا! تم محمدؐ کی نسبت میری محبت کی شدت سے آگاہ ہو، اب دیکھونگا کہ ان کے حق میں میری وصیت پر کس طرح عمل کرتے ہو"۔ ابو طالبؑ نے جوابا کہا:"ابا جان! مجھے محمدؐ کے بارے میں سفارش کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ میرا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے۔

ابن شہر آشوب مزید کہتے ہیں: "عبد المطلبؑ" کا انتقال ہوا تو ابو طالبؑ نے رسول خداؐ کو کھانے پینے اور لباس و پوشاک میں اپنے اہل خانہ پر مقدم رکھا۔[15] ابن ہشام لکھتے ہیں: "ابو طالبؑ رسول خداؐ کو خاص توجہ دیتے تھے؛ اور آپؐ پر اپنے بیٹوں سے زیادہ احسان کرتے تھے، بہترین غذا آپؐ کے لئے فراہم کرتے تھے اور آپؐ کا بستر اپنے بستر کے ساتھ بچھا دیتے تھے اور ان کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے"۔[16]

ابو طالبؑ جب بھی اپنے بیٹوں بیٹیوں کو کھانا کھلانے کے لئے دسترخوان بچھاکر کہا کرتے تھے کہ "رک جاؤ کہ میرا بیٹا (رسول خداؐ) آ جائے۔[17]

🔷 *رسول اللہؐ کے حامی و پشت پناہ*

ابوطالب کے اشعار کا ایک نمونہ

أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّا وَجَدْنَا مُحَمَّدًا

نَبِیا کمُوسَی خُطَّ فِی أَوَّلِ الْکتُبِ

وَأَنَّ عَلَیهِ فِی الْعِبَادِ مَحَبَّةً

وَلَا خَیرَ مِمَّنْ خَصَّهُ اللَّهُ بِالْحُبِّ

کیا نہیں جانتے ہم نے حضرت محمدؐ کو حضرت موسی کی طرح پیغمبر پایا اور ان کا نام اور ان کی نشانی آسمانی کتابوں میں آیا ہے، خدا کی مخلوقات کو ان سے ایک خاص محبت ہے، اور جس کی محبت خدا نے لوگوں کے دلوں میں ودیعت کی ہے اس پر ستم روا نہیں کیا جا سکتا۔

ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفہ، ج۱، ص۳۵۲.

تاریخی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو طالبؑ نےقریش کے دباؤ، سازشوں دھونس دھمکیوں اور ان کی طرف لاحق خطرات کے مقابلے میں رسول اکرمؐ کے بےشائبہ اور بےدریغ حمایت جاری رکھی۔ گوکہ ابو طالبؑ کی عمر رسول اللہؐ کی بعثت کے وقت پچھتر برس ہوچکی تھی، تاہم انھوں نے ابتداء ہی سے آپؐ کی حمایت و ہمراہی کو ثابت کر دکھایا۔ انھوں نے قریش کے عمائدین کے سے باضابطہ ملاقاتوں کے دوران رسول اللہؐ کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کا اعلان کیا۔[18] یعقوبی کے مطابق یہ حمایت اور محبت اس حد تک تھی کہ جناب ابو طالبؑ اور ان کی زوجہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت اسد(س) رسول اللہؐ کے لئے ماں باپ کی صورت اختیار کرگئے تھے۔[19]

قریش نے ابوطالب کو عمارہ بن ولید مخزومی جو ایک خوبصورت اور طاقتور جوان تھا کو اپنا لے پالک بیٹا بنانے کی پیشکش کی جس کے مقابلے میں وہ محمدؐ کو ان کے حوالے کر دیں؛ لیکن ابوطالب نے ان کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے ان کی سرزنش کی۔[20]

پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب کے وفات کے وقت فرمایا: جب تک ابوطالب بقید حیات تھے قریش مجھ سے خوف محسوس کرتے تھے۔[21]شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ جس دن ابوطالب کی وفات ہوئی جبرئیل پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئے اور کہا: مکہ سے باہر نکلو کیونکہ اب اس میں آپ کا کوئی حامی اور مددگار نہیں رہا۔[22]

🌹 *ایمان ابی طالب*🌹

شک نہیں کہ ابو طالبؑ رسول خداؐ کے سرپرست اور اور دشوار ترین ایام میں آپؐ کے حامی تھے لیکن آپ کا ایمان لانا اور نہ لانا شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مورد بحث رہا ہے۔ شیعیان اثنا عشری ابو طالبؑ کے ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے پر یقین کامل رکھتے ہیں اور علمائے شیعہ ائمۂ اہل بیتؑ کی روایات کی روشنی میں ان کے ایمان پر اجماع رکھتے ہیں۔[24] لیکن اس کے مقابلے میں بعض علمائے اہل سنت کا خیال ہے کہ ابو طالبؑ شریعت اسلام پر ایمان نہیں لائے اور حالت شرک میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔[25] البتہ بعض اہل سنت نے شیعہ کی حمایت میں مستقل ایمان ابوطالب پر کتابیں لکھی ہیں ۔

⚫ *وفات اور عام الحزن*

ابوطالب کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ شیخ طوسی 26 رجب دسویں بعثت کو روز وفات سمجھتے ہیں[26]یعقوبی ماہ رمضان میں حضرت خدیجہ کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ابوطالب کی وفات کو حضرت خدیجہ کی وفات کے تیسرے دن قرار دیتے ہیں اور وفات کے وقت آپ کی عمر 86 یا 90 سال بتاتے ہیں[27] بعض مورخین 1 ذی‌ القعدہ اور بعض 15 شوال کو آپ کا یوم وفات قرار دیتے ہیں۔[28]

آپ کی وفات کے دن پیغمبر اکرمؐ نے سخت گریہ فرمایا اور حضرت علیؑ کو غسل و کفن دینے کا حکم دیا اور آپؐ نے ان کے لئے طلب رحمت کی دعا کی۔[29] جب حضرت محمدؐ حضرت ابوطاب کے دفن کی جگہ پہنچے تو فرمایا: اس طرح آپ کی مغفرت اور شفاعت کے لئے دعا کرونگا کہ جن و انس حیران رہ جائے۔[30] آپ کے جسد خاکی کو مکہ میں آپ کے والد گرامی عبدالمطلب کے ساتھ قبرستان حُجون میں سپرد خاک گیا گیا۔[31]

😭پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ(س)کی وفات کے سال کو عامُ الحُزْن کا نام دیا۔[32]

http://t.me/safeina

📖 *حوالہ جات*

↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۲۸۸؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۲۱.
↑ ابن عنبہ، عمده الطالب، ۱۳۸۰ق، ص۲۰.
↑ طبری، تاریخ الطبری، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۲؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۸۴ق، ج۲، ص۱۱۱.
↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۹۳
↑ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ص۱۵۸-۱۶۷.
↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۲۱ و ۱۲۲.
↑ تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 13۔
↑ ابن قتیبه، محمد، المعارف، ص 575.
↑ تاریخ یعقوبی، ج2، ص14۔
↑ قمی، عباس، الکنی و الالقاب، ج1، ص108 و 109۔
↑ انساب الاشراف، ج2، ص288۔
↑ سنن نسایی، ج 8، ص 2 – 4۔
↑ سیره حلبی، ج 1، ص 184۔
↑ سیره ابن‌هشام، ج 1، ص 116، دلائل النبوه، ج 2، ص 22۔
↑ مناقب، ج 1، ص 36۔
↑ طبقات ابن‌ سعد، ج 1، ص 119۔
↑ ابن شہر آشوب، مناقب، ج 1، ص 37۔
↑ سیره ابن هشام، ج1، ص172 و 173۔
↑ تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 14۔
↑ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۲۶۷؛ طبری، تاریخ الطبری، ۱۴۰۳ق، ج ۲، ص۳۲۷.
↑ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج ۶۶، ص۳۳۹؛ ابن اثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۶۴.
↑ مفید، ایمان ابی طالب، ۱۴۱۴ق، ص۲۴.
↑ شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 18۔
↑ طوسی، التبیان، ۱۴۰۹ق، ج ۸، ص۱۶۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۱؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ۱۴۲۳ق، ص۱۳۸.
↑ غفاری، کبیر الصحابۃ أبو طالب(ع)، ص۱۶۶؛ حسن، أبو طالب طود الإیمان الراسخ، ص۱۶۶.
↑ یوسفی غروی، موسوعة التاریخ الإسلامی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۶۴۰ منقول از شیخ طوسی، المصباح، ص۵۶۶.
↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی(الاعلمی)، ج۱، ص۳۵۴
↑ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۴۵.
↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۳۵، ص۱۶۳، ابن جوزی، تذکرہ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج ۱، ص۱۴۵.
↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۴، ص۷۶.
↑ بلارذی، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۲۹.
↑ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۴۵.

[ دوشنبه پانزدهم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 14:1 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

حضرت خدیجه

پیرولی:
💠 شمه ای از فضایل خدیجه سلام الله علیها 

🔅 این حدیث در کتابهای حدیثی شیعه و اهل سنت آمده که رسول خدا-صلی الله علیه و آله-فرموده:
🔸 «کمل من الرجال خلق کثیر و لم یکمل من النساء الآ مریم، و آسیه امراة فرعون، و خدیجة بنت خویلد،و فاطمة بنت محمد»؛
🔹 از مردان گروه زیادی به کمال رسیدند ولی از میان زنان جز چهار زن کسی به مرحله کمال نرسید: مریم، و آسیه همسر فرعون، و خدیجه دختر خویلد، و فاطمه دختر محمد.
📚 مجمع البیان، ج ۵، ص ۳۲۰؛ تفسیر کشاف، ج ۳، ص ۲۵۰.

🔅 در حدیث دیگری که ابن حجر در کتاب الاصابه و دیگران از ابن عباس روایت کرده اند اینگونه است که گوید: رسول خدا(ص) چهار خط روی زمین ترسیم کرده آنگاه فرمود:
🔸 «افضل نساء اهل الجنة خدیجة، و فاطمة و مریم و آسیة ».
🔹 برترین زنان اهل بهشت: خدیجه و فاطمه و مریم وآسیه هستند...
📚 الاصابه، ج ۴، ص ۳۶۶؛ اسد الغابه، ج ۵، ص ۴۳۷؛ خصال صدوق، ج ۱، ص ۹۶.

🔅 از عایشه روایت کرده اند که گوید: هیچگاه نمی شد که رسول خدا از خانه بیرون رود جز آنکه خدیجه را یادمی کرد و ستایش و مدح او را می نمود، تا اینکه روزی طبق همان شیوه ای که داشت نام خدیجه را برد و او را یاد کرد، دراین وقت رشک و حسد مرا گرفت و گفتم:
🔸 «هل کانت الا عجوزا فقد ابدلک الله خیرا منها». (۱) 
🔹 خدیجه جز پیرزنی بیش نبود در صورتی که خداوند بهتر از او بهره تو کرده.!
▫️ عایشه گوید: در این وقت رسول خدا-که این سخن مرا شنید غضبناک شد به حدی که از شدت غضب موهای جلوی سر آن حضرت حرکت کرد آنگاه فرمود:
🔸 «و الله ما ابدلنی الله خیرا منها،آمنت اذ کفر الناس،و صدقتنی و کذبنی الناس،و واستنی فی مالها اذ حرمنی الناس و رزقنی الله منها اولادا اذ حرمنی اولاد النساء».
🔹 بخدا سوگند خداوند بهتر از او زنی به من نداده،او بود که بمن ایمان آورد هنگامی که مردم کفر ورزیدند،و او بود که مراتصدیق کرد و مردم مرا تکذیب نموده (و دروغگویم خواندند) و او بود که در مال خود با من مواسات کرد (و مرا بر خود مقدم داشت) در وقتی که مردم محرومم کردند، و از او بود که خداوند فرزندانی روزی من کرد و از زنان دیگر نسبت بفرزند محرومم ساخت.
▫️ عایشه گوید: با خود گفتم: دیگر از این پس هرگز به بدی او را یاد نخواهم کرد.
📚 اسد الغابه، ج ۵، ص ۴۳۸؛ الاصابه، ج ۴، ص ۲۷۵.

🔅 در روایت اربلی در کشف الغمه اینگونه است که علی علیه السلام فرمود: روزی نزد رسول خدا (ص) نام خدیجه سلام الله علیها برده شد و رسول خدا (ص) گریست. عایشه که چنان دید گفت:
🔸 «...ما یبکیک علی عجوز حمراء من بنی اسد؟ فقال صدقتنی اذکذبتم و آمنت بی اذ کفرتم، و ولدت لی اذ عقمتم، فقالت عایشه: فما زلت اتقرب الی رسول الله-صلی الله علیه و آله-بذکرها».
🔹 چه گریه ای است که برای پیرزنی سرخ رو از بنی اسدمی کنی؟ رسول خدا فرمود: او مرا تصدیق کرد هنگامی که شما تکذیبم کردید و به من ایمان آورد در وقتی که شما کافر شدید و برای من فرزند آورد که شما نیاوردید!
▫️ عایشه گوید: از آن پس پیوسته من با یاد خدیجه و با نام او به رسول خدا تقرب می جستم.
(و هرگاه می خواستم رسول خدا به من توجه کرده و به سخنم گوش دهد سخنم را با نام خدیجه شروع می کردم).
📚 بحار الانوار، ج ۱۶، ص ۸.

🔅 در حدیثی که عیاشی در تفسیر خود از ابی سعید خدری روایت کرده اینگونه است که رسول خدا(ص) فرمود: در شب معراج هنگامی که بازگشتم به جبرئیل گفتم: آیا حاجتی داری؟ گفت:
🔸 «حاجتی ان تقرا علی خدیجه من الله و منی السلام...».
🔹 حاجت من این است که خدیجه را از سوی خداوند و از سوی من سلام برسانی. و چون رسول خدا سلام خدا و جبرئیل را به خدیجه ابلاغ فرمود، خدیجه در پاسخ گفت:
🔸 «ان الله هو السلام، و منه السلام، و الیه السلام ».
📚 سفینة البحار، ج ۱، ص ۳۷۹.

✅ و بالاخره خدیجه سلام الله علیها همان بانوی بزرگوار است که به اجماع اهل تاریخ نخستین زن و یا نخستین انسانی است که به رسول خدا(ص) ایمان آورد... و وسیله آرامشی برای آن حضرت در برابر طوفانهای حوادث سهمگین و اندوه های فراوان آغاز رسالت بود...
▫️ و با ایثار مال فراوان خود برای پیشرفت اسلام در روزهائی که اسلام نیاز شدید به بودجه داشت بزرگترین حق را بر همه مسلمانان جهان تا روز قیامت دارد...
▫️ و سخت ترین مشکلات را بخاطر حفظ ایمان بخدا و دفاع ازاسلام و پیامبر اسلام (ص) متحمل شد.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[ دوشنبه پانزدهم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 0:8 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
.: Weblog Themes By themzha :.

درباره وبلاگ

ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر
امکانات وب