|
Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ
| ||
|
(( قیام امام حسین ع کے اہداف خود امام ع کی زبانی )) قسط.۴- سنت نبوی کا احیاء اور بدعتوں کا خاتمہ: امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہم اہداف میں سے ایک نمایاں ہدف سنت نبوی کو زندہ کرنا اور بدعتوں کا قلع قمع کرنا تھا۔ اس بات کی تصریح امام علیہ السلام نے اپنے متعدد اقوال اور خطوط میں کی ہے۔ امام حسین ع نے شہر بصرہ کے معزز افراد کو ایک خط میں تحریر فرمایا: أنا أدعوكم إلى كتاب الله و سنة نبيه، فإن السنة قد أميتت و إن البدعة قد أحييت، و إن تسمعوا قولي و تطيعوا أمري أهدكم سبيل الرشاد. ترجمہ: میں تم سب کو اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی ص کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں، کیونکہ سنت کو ختم کر دیا گیا ہے اور بدعت کو زندہ کر دیا گیا ہے۔ اگر تم میری بات سنو اور میرے حکم کی اطاعت کرو، تو میں تمہیں ہدایت کی راہ پر گامزن کروں گا۔ (تاریخ طبری، جلد ۵، ص ۳۵۷) اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے اپنے قیام کے محرکات بیان کرتے ہوئے فرمایا: و أسيرَ بسيرةِ جدي و أبي عليّ بن أبي طالب عليهما السلام. ترجمہ: میں اپنے نانا رسول خدا ص اور اپنے والد علی بن ابی طالب کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کے لیے قیام کر رہا ہوں۔ (مقتل خوارزمی، جلد ۱، ص۲۷۳) ان شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ امام حسین ع کے اہداف قیام میں سے ایک بنیادی مقصد اسلامی معاشرے میں رائج ان بدعتوں کی بیخ کنی تھا جنہوں نے دین کے چہرے کو مسخ کر دیا تھا، اور سنت نبوی کو پھر سے معاشرتی و حکومتی سطح پر نافذ کرنا تھا۔ ( بنی امیہ کے دور کی بدعتیں ) اموی حکومت نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے دین میں متعدد تحریفات اور بدعتیں رائج کیں۔ ان میں سے چند اہم اور سنگین بدعتیں درج ذیل ہیں: ۱) عقیدہ جبر کی ترویج۔ حکومتی ظلم و ستم کو تقدیر کا حصہ قرار دے کر عوامی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے عقیدہ جبر عام کیا گیا، تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ خدا کی طرف سے ہے، اور اسے بدلنے کی کوشش گناہ ہے۔ ۲) جعلی احادیث کی ترویج۔ دنیا پرست علما اور خطبا کو خرید کر ایسی احادیث گھڑوائی گئیں جو بنی امیہ کے حکمرانوں کی مدح میں تھیں، جبکہ اہل بیت ع کی فضیلت کو چھپایا گیا۔ ۳) خلافت کو موروثی سلطنت میں تبدیل کرنا۔ یزید کی ولی عہدی اس انحراف کی واضح مثال ہے۔ ۴) منبروں سے امیرالمؤمنین پر لعنت کرنا۔ جمعہ کے خطبوں میں حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کرنا سرکاری پالیسی کا حصہ بن گیا، جو دین اسلام کے بنیادی اخلاقی اصولوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔ ۵) فضیلت کا معیار بدلنا۔ قرآن کے مطابق فضیلت کا معیار تقوی ہے، مگر بنی امیہ نے مال و نسب کو فضیلت کا معیار بنا دیا۔ ۶) اقربا پروری اور قوم پرستی۔ حکومت نے قوم پرستی اور قبیلہ پرستی کو ہوا دی، جس سے اسلامی عدل کا نظام کمزور ہوا۔ ۷) دین و سیاست کی جدائی۔ دین کو نجی معاملہ اور سیاست کو دنیاوی قرار دے کر انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا، حالانکہ اسلام ایک ہمہ گیر نظام حیات ہے۔ ۸) نص قطعی کے مقابلے میں اجتہاد۔ واضح شرعی نصوص کے باوجود خودساختہ اجتہاد کے ذریعے من پسند احکام نافذ کیے گئے، جو دینی اصولوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔ [ یکشنبه هشتم تیر ۱۴۰۴ ] [ 10:53 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
|
||
| [قالب وبلاگ : تمزها] [Weblog Themes By : themzha.com] | ||