Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ 
پيوندهای روزانه


صله مصدر از ریشه "وصل" و به معنای پیوستن و متصل شدن دو چیز است. (1) و رَحِم در لغت و عرف به معنای نزدیکان و بستگان انسان است(2). بنابراین صله رَحِم به معنای پیوند و پیوست به خویشاوندان و بستگان است.

رَحِم و رحمت در واژه از یک ریشه اند اما این اشتراک تنها در قاموس واژگان نیست بلکه در واقع هستی نیز رَحِم و رحمت قرین یکدیگرند. رسول خدا(ص) در حدیثی قدسی می فرمایند:

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ یقُولُ أَنَا الرَّحْمَنُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَ شَقَقْتُ لَهَا اسْماً مِنِ اسْمِی فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَ مَنْ قَطَعَهَا قَطَعْتُه (3)



من رحمان هستم و نام رحم را از اسم خود مشتق کرده ام. پس هر کس صله رحم کند و با بستگان خود پیوند برقرار سازد، من او را با رحمت خود وصل خواهم کرد و هر کس قطع کند، من رحمت خود را از او خواهم برید.



رحمت عامل رشد و شکوفایی

راز آن برکات سرشاری که خداوند به صله رحم کنندگان وعده داده در همین نکته است. چرا که سر و کارشان با رحمانیت خداوند است. رحمتی که در دنیا عامل رویش و حیات و شکوفایی است. قرآن کریم می فرماید: فَانْظُرْ إِلی آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ کیفَ یحْی الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها إِنَّ ذلِک لَمُحْی الْمَوْتی وَ هُوَ عَلی کلِّ شَی ءٍ قَدیرٌ (50روم)



پس با تأمل به آثار رحمت خدا بنگر که چگونه زمین را پس از مردگی اش زنده می کند، بی تردید این [خدای قدرتمند] زنده کننده مردگان است و او بر هر کاری تواناست.



طول عمر، آبادی شهرها و فراوانی اموال، جلب محبت بستگان و. . . همه و همه نتیجه بارش رحمت خدا بر ساکنان زمین است. رحمتی که همه موجودات فراخور حالشان از آن بهره ای دارند. از این رو کسانی که پیوند خویشی را نگاه دارند خواه بدکردار باشند یا نیکو رفتار سهمی از این بارش رحمانی خواهند داشت. هرچند شایستگاه بهره بیشتری دارند و دامنه رحمت الهی در قیامت نیز آنها را فرا خواهد گرفت. رسول حق محمد مصطفی(ص) فرمود:إِنَّ الْقَوْمَ لَیکونُونَ فَجَرَةً وَ لَا یکونُونَ بَرَرَةً فَیصِلُونَ أَرْحَامَهُمْ فَتَنْمِی أَمْوَالُهُمْ وَ تَطُولُ أَعْمَارُهُمْ فَکیفَ إِذَا کانُوا أَبْرَاراً بَرَرَةً. (4)

گاهی مردمی بد کردارند و نیکو کار نیستند و صلۀرحم می کنند پس مالشان زیاد می شود و عمرشان دراز می گردد تا چه رسد که نیکو کار باشد و صله رحم کنند.

قاطعان رحم محرومان از رحمت

و اما سکه ای که یک روی آن رحمت است سوی دیگری دارد و آن غضب و لعنت خداوند است و آن شامل کسانی است که حق خویشاوندی را نادیده انگارند و پیوند خود را با بستگان قطع کنند. قرآن کریم می فرماید:



فَهَلْ عَسَیتُمْ إِنْ تَوَلَّیتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَ تُقَطِّعُوا أَرْحامَکمْ. أُولئِک الَّذینَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ أَعْمی أَبْصارَهُمْ (23 و22 محمد)



آیه گویای این حقیقت است که قطع رحم، لعن خداوند را در پی دارد و لعن خداوند و دور شدن انسان از رحمت حیات بخش الهی نتیجه ای جز کری و کوری دل برای انسان نخواهد داشت.



(1). ( قاموس قرآن، ج 7، ص: 222)



(2). (المنجد، رحم؛ ذو رحم ای ذو قرابه)



(3). بحار الأنوار (ط - بیروت)؛ ج 47؛ ص212



(4). الکافی (ط - الإسلامیة)؛ ج 2؛ ص155

اهمیت

الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہ مِن بَعْدِ مِيثَاقِہِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَئِكَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ۔ ترجمہ: جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقتا خسارہ والے ہیں۔ بقرہ: ۲۷

«فہل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ارحامکم اولئک الذین لعنہم اللہ فآصمہم و اعمی ابصار ہم»۔ ترجمہ: تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے (سورہ محمد، آیہ ۲۲و 23

فوائد

صلہ رحمی اور طولانی عمر

امام صادقؑ فرماتے ہیں: ما نَعلَمُ شَیئا یزیدُ فِی العُمرِ اِلاّ صِلَةَ الرَّحِمِ، حَتّی اِنَّ الرَّجُلَ یکونُ اَجَلُهُ ثَلاثَ سِنینَ فَیکونُ وَصولاً لِلرَّحِمِ فَیزیدُ اللّه فی عُمرِهِ ثَلاثینَ سَنَةً فَیجعَلُها ثَلاثا وَ ثَلاثینَ سَنَةً، وَ یکونُ اَجَلُهُ ثَلاثا وَ ثَلاثینَ سَنَةً فَیکونَ قاطِعا لِلرَّحِمِ، فَینقُصُهُ اللّه ثَلاثینَ سَنَةً وَ یجعَلُ اَجَلَهُ اِلی ثَلاثِ سِنینَ«صلہ رحمی کے علاوہ کسی اور چیز کا ہمیں علم نہیں جو (مستقیم)عمر کو زیادہ کرتی ہو۔ یہاں تک کہ اگر کسی کی عمر صرف تین سال باقی رہی ہو اور وہ صلہ رحمی کرنے والا ہو تو اللہ تعالی اس کی عمر میں تیس سال اور اضافہ کرتا ہے اور 33 سال زندہ رہتا ہے۔ اور کبھی کسی عمر 33 سال باقی ہے لیکن رشتہ دار سے رابطہ کاٹنے کی وجہ سے عمر کم ہوتی ہے اور تین سال کے بعد موت آجاتی ہے۔

کافی، اصول کافی، ج ۲، ص۱۵۲، ح ۱۷



عرفی حوالے سے رشتہ داری دو قسم کی ہے:



نسبی رشتہ داری جو خون اور رحم کے ذریعے سے ایجاد ہوتی ہے، جیسے ماں، باپ، اولاد، بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، ماوں، خالہ، داد، دادی، اور تمام نسبی رشتہ داروں کی اولاد۔[9] اس قسم کے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا واجب ہے اور اگر انہیں کوئی چیز ہدیہ کے طور پر دی جائے تو واپس لینا جائز نہیں ہے۔

سببی رشتہ داری شادی کے ذریعے سے وجود میں آتی ہے؛ جیسے میاں بیوی اور ان دونوں کے رشتہ داروں کے درمیان کی رشتہ داری۔ لیکن کیا ان رشتہ داروں کے ساتھ بھی صلہ رحمی واجب ہے یا نہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔سانچہ:مدرک[10]

روحانی رشتہ دار

پیغمبر اکرمؐ اور انکی اہل بیتؑ: بعض روایات میں رشتہ داروں سے ارتباط اور صلہ رحمی کے علاوہ ائمہؑ سے رابطہ رکھنے کا حکم ہوا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے بھی ایک روایت میں فرمایا ہے: میں اور علی اس امت کے باپ ہیں۔[12]

دینی علما: دینی مآخذ میں دینی علما سے رابطہ قائم کرنے کی بھی تاکید کرتے ہیں اور اس رابطے کیلیے بہت زیادہ ثواب قرار دیا ہے۔[13]

مومن بھائی: اگلے مرتبے میں دینی بھائی سے رابطہ قایم کرنے کا کہا گیا ہے:اِنّما المِؤمنونَ إخوةٌ.[14] امام صادقؑ فرماتے ہیں: مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں؛ اگر ان میں سے کسی ایک کو تکلیف پہنچے تو اس کی وجہ سے دوسرے رات کو آرام نہیں کرتے ہیں

لہ رحمی اور کتابیں

حوالہ جات

الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہ مِن بَعْدِ مِيثَاقِہِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَئِكَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ۔ ترجمہ: جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقتا خسارہ والے ہیں۔ بقرہ: ۲۷

«فہل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ارحامکم اولئک الذین لعنہم اللہ فآصمہم و اعمی ابصار ہم»۔ ترجمہ: تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے (سورہ محمد، آیہ ۲۲ و ۲۳ )

لغت نامہ دہخدا، ج۷، ص۱۰۵۱۹.

لغت نامہ دہخدا، ج۱۴، ص۲۰۵۷۲.

مستدرک سفینہ البحار، ج۴، ص۱۱۲.

لغت نامہ دہخدا، ج۷، ص۱۰۵۱۹.

طاہری خرم آبادی، صلة الرحم و قطیعتہا، ص۱۲، مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۰۷ق

أنا الرحمنُ خلقتُ الرَّحم و شققتُ لها اسماً من اسمی فَمَن وَصَلَها وَصَلْتُه وَ مَنْ قَطَعَها قَطَعْتُه؛ بحارالانوار ج۴۷ ص۱۸۷



*جو لوگ کسی واسطے کے بغیر ماں باپ سے منسوب ہوتے ہیں جیسے بہن بھائی، اور جو واسطے کے ذریعے ان سے منسوب ہوتے ہیں جیسے پوتا اور چچازاد۔

جو لوگ نسبی رشتہ داری یا شرعی احکام کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ شادی نہیں کر سکتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ارحام میں سے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جن سے شریعت میں شادی ممنوع نہیں جیسے چچازاد وغیرہ تو وہ ایک دوسرے کے ارحام شمار نہیں ہوتے ہیں۔

ارحام، صرف ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کتاب میراث کی طبقہ بندی میں مدنظر مصادیق سمجھے جاتے ہیں۔

ارحام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنکا چوتھا جد مشترک ہو یعنی چار نسلوں کے بعد آپس میں مل جاتے ہیں۔ اسی لیے بھائی اور بہن، ان کی اولاد، چچااور اس کی اولاد، پھوپھی اور اس کی اولاد، ماموں اور اس کی اولاد، خالہ اور اس کی اولاد اور تمام وہ لوگ جو اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی نسبت رکھتے ہیں خواہ ان سے شادی کرنا جائز ہو یا نہ ہو ایک دوسرے سے ارث لیتے ہوں یا نہ ہوں دور کے رشتہ دار ہوں یا نزدیک کے ان سب کو ارحام کہا جاتا ہے۔

سورہ اسراء آیہ نمبر 23۔ اور دوسری آیات کے لئے مشاہدہ کریں:رعد۲۱و۲۲و۲۳و۲۴، انعام ۱۵۱، بقرہ ۱۷۷، نساء ۸، مجادلہ ۲۲.

عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۹۱

حضرت رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:مَا مِن مُوْمِن یقْعُدُ سَاعَة عِنْدَ العَالِم الاَّ نَاداه رَبُّه : جَلَسْت الی حَبِیبِی ؟ وَعِزَّتِی و جَلاَلِی لاَسْکنْتُک الجَنَّة مَعَه۔ یعنی جو بھی مومن کسی عالم کے پاس ایک لمحہ بیٹھ جاتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے اسے ندا آتی ہے: کیا میرے حبیب کے پاس بیٹھے ہو؟ مجھے اپنی عزت اور جلالت کی قسم تجھے جنت میں اس کا ہمنشین بنا دونگا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: حُضُورُ مَجْلِس عَالِم، أفْضَل مِن حُضُورِ أَلْف جَنَازَة، وَ مِن عِیادَة ألْف مَرِیض، وَ مِن قِیام ألْف لَیلَة، وَ مِن صِیام ألْف یوْم ؛ ان اللهَ یطَاع بِالعِلْم، ویعْبَدُ بِالعِلْم، وَ خَیرُ الدُّنْیا وَ الا خِرَة مَع العِلْم : یعنی عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار تشییع جنازہ، ہزار مریضوں کی عیادت، ہزار راتوں کی شب بیداری اور ہزار دن روزہ رکھنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ علم ہی کے طفیل اللہ تعالی کی عبادت اور اطاعت ہوتی ہے اور دنیا و آخرت کی خیر و نیکی علم سے مربوط ہے۔»

14-حجرات/۱۰

۱۵- کافی، ج۲، ۱ص۱۶۵

یسْأَلُونَک مَاذَا ینفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیرٍ فَلِلْوَالِدَینِ وَالْأَقْرَ بِینَ وَالْیتَامَیٰ وَالْمَسَاکینِ وَابْنِ السَّبِیلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِیمٌ پیغمبر یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ راسِ خدا میں کیا خرچ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ جو بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے والدینً قرابتدرً ایتامً مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہوگا اور جو بھی کار خیر کروگے خدا اسے خوب جانتا ہے۔ (سورہ بقرہ، آیہ،۲۱۵)

↑ روی عن النبی(ص): لَا تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ عَلَی قَوْمٍ فِیهِمْ قَاطِعُ الرَّحِمِ: اللہ تعالی اپنی رحمت کو اسی قوم سے روکتا ہے جو رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والی ہے۔ (مستدرک الوسایل ج۱۵ ص۱۸۴)

↑ بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۳۵،ح ۸۸ و ص۱۳۸،ح ۱۰۷

↑ . قست “اہمیت صلہ رحم در اسلام: مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج ۱، ص۱۵۶- ۱۵۸

↑ فِی خُطْبَةِ فَاطِمَةَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیهَا فَرَضَ اللَّهُ صِلَةَ الْأَرْحَامِ مَنْمَاةً لِلْعَدَد. (بحارالانوار ج۷۱ ص۹۴)

↑ سایت شبستان

↑ پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: جو بھی مجھے ایک چیز کی ضمانت دے میں اسے چار چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں۔ وہ صلہ رحمی انجام دے؛ تو اللہ اسے محبت، روزی میں اضافہ، عمر طولانی کرے گا اور جس بہشت کا وعدہ دیا ہے اس میں داخل کرے گا۔بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۳

↑ کسی نے آنحضرتؐ سے عرض کیا: میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن سے میں رابطے میں ہوں لیکن وہ مجھے ہمیشہ تکلیف پہنچاتے ہیں: اب میں چاہتا ہوں کہ ان سے دور ہوجاوں تو آپؐ نے فرمایا: جس نے تجھے محروم رکھا اسے محروم نہ کر؛ جو تم سے جدا ہوا اس سے تعلق ختم نہ کرنا، جس نے تجھ پر ستم ڈھایا اسے معاف کر، اگر ایسا کیا تو اللہ تعالی تمہارا حامی ہوگا۔بحار الانوار، ج ۷۴، ص۱۰۰

↑ پیامبر اکرمؐ:اَلصَّدَقَةُ عَلی وَجْهِها وَاصْطِناعُ الْمَعْروفِ وَ بِرُّ الْوالِدَینِ وَصِلَةُ الرَّحِمِ تُحَوِّلُ الشِّقاءَ سَعادَةً وَتَزیدُ فِی الْعُمْرِ وَ تَقی مَصارِ عَ السُّوءِ؛ ترجمہ: درست صدقہ، والدین سے نیکی اور صلہ رحمی بدبختی کو خوشبختی میں تبدیل کرتے ہیں اور عمر کو زیادہ کرتے ہیں اور برے حادثات سے روکتے ہیں۔نہج الفصاحہ، ح ۱۸۶۹

↑ نہج الفصاحہ، ح ۱۸۶۹

↑ اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰

↑ امام صادقؑ: صلہ رحمی، موت کو ٹالتی ہے؛ گھر میں محبت ایجاد کرتی ہے، قیامت کے دن حساب میں آسانی کرتی ہے؛ اور گناہوں کو کم کرتی ہے۔ پس اپنے رشتہ داروں سے رابطہ قایم کرو اور اپنے بھائیوں سے نیک سلوک کرو اگرچہ اچھی طرح سے سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۴

↑ امام باقرؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے: «پل صراط کے دونوں طرف امانت اور صلۂ رحمی ہے۔ پس جس نے لوگوں کی امانت میں خیانت نہیں کی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس پل سے آسانی کے ساتھ عبور کرتا ہوا بہشت میں داخل ہوگا۔لیکن جس نے امانت میں خیانت کی اور رشتہ دار سے رابطہ قطع کیا اس کا کوئی اور عمل اس کے کام نہیں آیا گااور وہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۱۸.

↑ بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۴

↑ امام علیؑ:کفِّروا ذُنوبَکمْ وَتَحَبَّبوا اِلی رَبِّکمْ بِالصَّدَقَةِ وَ صِلَةِ الرَّحِمِ؛ صدقہ اور صلہ رحمی کے ذریعے اپنے گناہوں کو پاک کرو اور خود کو اپنے پروردگار کے محبوب بناو۔ غررالحکم، ح ۷۲۵۸

↑ امام علیؑ: نعمتوں کی حفاظت صلہ رحمی میں نہاں ہے۔غررالحکم، ح ۴۹۲۹

↑ بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۳.

↑ «صلۃ الارحام تزکی الاعمال و تنمی الاموال و تدفع البلوی و تیسر الحساب و تنسی فی الاجل»، اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰

↑ رسول اللہؐ کا ارشاد ہے: «صلۂ رحمی عمر کو اضافہ اور فقر کو ختم کرتی ہے۔بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۰۳.

↑ اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰

↑ پیامبر اکرمؐ کا فرمان ہے: جو شخص خود یا اپنے مال کو رشتہ داروں کی خدمت میں استعمال کرتا ہے، اللہ تعالی اسے سو شہیدوں کا اجر عطا کرتا ہے، اور اس راہ میں جو قدم اٹھاتا ہے چالیس ہزار حسنات عطا کرتا ہے اور چالیس ہزار گناہ معاف کرتا ہے اور اسی تعداد میں اس کے معنوی درجات کو بلند کرتا ہے۔۔۔۔ اور اس کی ستر دنیوی حاجات کو قبول کرتا ہے۔بحارالانوار، ج۷۳، ص۳۳۵.

↑ امام علیؑ: زَکوةُ الْیسارِ بِرُّ الْجیرانِ وَ صِلَةُ الاَرحامِ؛ ہمسائیوں سے نیکی اور صلہ رحمی آسائشوں کی زکات ہے۔غررالحکم، ح ۵۴۵۳

↑ امام صادقؑ: «صلہ رحمی اخلاق کو اچھا، ہاتھ کو دینے والا، جان کو پاکیزہ، روزی کو زیادہ، اور موت کو دور کرتی ہے۔»اصول کافی، ج۲، ص۱۵۱.

↑ امام باقرؑ: اِنَّ اَعْجَلَ الْخَیرِ ثَواباً صِلَةُ الرَّحِمِ؛ ہر نیک کام سے پہلے صلہ رحمی کا ثواب انسان تک پہنچتا ہے۔ کافی، ج ۲، ص۱۵۲، ح ۱۵

↑ پیامبر اکرمؐ:مَنْ مَشی اِلی ذی قَرابَةٍ بِنَفْسِهِ وَ مالِهِ لِیصِلَ رَحِمَهُ اَعْطاهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ اَجْرَ مِأَةِ شَهیدٍ؛ جو بھی جان اور مال کے ذریعے سے رشتہ داروں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالی اس کو سو شہید کا اجر دیتا ہے۔ من لایحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص۱۶

↑ امام صادقؑ:«صلة الارحام تحسن الخلق و تسمح الکف و تطیب النفس و تزید فی الرزق و تنسئ الاجل»، کافی،ج۲، ص۱۵۰ و ۱۵۱

↑ کافی،ج۲، ص۱۵۰ و ۱۵۱

↑ کافی، ج۲، ص۱۵۰ و ۱۵۱

↑ امام صادقؑ فرماتے ہیں: «صلہ رحمی کے علاوہ کسی اور چیز کا ہمیں علم نہیں جو (مستقیم)عمر کو زیادہ کرتی ہو۔ یہاں تک کہ اگر کسی کی عمر صرف تین سال باقی رہی ہو اور وہ صلہ رحمی کرنے والا ہو تو اللہ تعالی اس کی عمر میں تیس سال اور اضافہ کرتا ہے اور 33 سال زندہ رہتا ہے۔ اور کبھی کسی عمر 33 سال باقی ہے لیکن رشتہ دار سے رابطہ کاٹنے کی وجہ سے عمر کم ہوتی ہے اور تین سال کے بعد موت آجاتی ہے۔کافی، ج۲، ص۱۵۲

↑ اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰

↑ پیامبر اسلام(ص): رشتہ داروں سے رابطہ شہروں کو آباد کرتا ہے، عمروں کو زیادہ کرتا ہے، اگرچہ انجام دینے والے نیک لوگ نہ ہوں۔ سفینہ البحار، ج ۱، ص۵۱۴

↑ امام سجادؑ نے ابوحمزہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: «اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالی تمہاری موت اچھی قرار دے اور قیامت کے دن تمہارے گناہ بخشدے تو پس تم نیکی کرو، چھپا کر صدقہ دو اور صلہ رحمی بجا لے آؤ، یقینا یہ انسان کی عمر کو زیادہ اور غربت کو ختم کرتی ہے۔ بحارالانوار، ج۹۳، ص۱۹۵.

↑ کسی نے رسول خدا صلّی اللّہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا:... قَالَ فَقَالَ الرَّجُلُ فَأَی الْأَعْمَالِ أَبْغَضُ إِلَی اللَّهِ قَالَ الشِّرْک بِاللَّهِ قَالَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ قَطِیعَةُ الرَّحِم...؛ اللہ تعالی کے حضور سب سے منفور ترین کام کیا ہے؟ فرمایا: اللہ تعالی کا شریک ٹھہرانا۔ پھر کہا: شرک بعد کون سا عمل ہے؟ فرمایا: قطع رحمی۔۔۔۔ کافی، ج۵، ص۵۸

↑ امام سجادؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پانچ قسم کے لوگوں سے بچے رہو، ان پانچ میں سے ایک گروہ رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والے ہیں: رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والی کی معاشرت سے بچے رہو کیونکہ قرآن نے اسے ملعون کہا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے دور قرار دیا ہے۔ سفینہ البحار، ج ۱، ص۵۱۴

↑ پیامبر(ص): کوئی بھی ایسی اطاعت نہیں جس کی پاداش صلہ رحمی سے پہلے ملے اور ظلم اور قطع رحمی کی سزا کی طرح جلدی ملنے والی کوئی سزا نہیں ہے۔ نہج الفصاحہ، ح ۲۳۹۸

↑ رسول اللہؐ کا فرمان ہے:ان ریح الجنة توجد من مسیرة ألف عام مایجدها عاق، و لاقاطع رحم... بحارالانوار، ج ۸ م باب الجنة و نعیمها، ح ۱۷۴

↑ امام باقرؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے: امام باقرؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے: «پل صراط کے دونوں طرف امانت اور صلۂ رحمی ہے۔ پس جس نے لوگوں کی امانت میں خیانت نہیں کی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس پل سے آسانی کے ساتھ عبور کرتا ہوا بہشت میں داخل ہوگا۔لیکن جس نے امانت میں خیانت کی اور رشتہ دار سے رابطہ قطع کیا اس کا کوئی اور عمل اس کے کام نہیں آیا گااور وہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۱۸.

↑ پیامبرؐ:کلُّ بَیتٍ لایدْخُلُ فیهِ الضَّیفُ لاتَدْخُلُهُ الْمَلائِکةُ؛ جس گھر میں مہمان نہیں آتے وہاں فرشتے نہیں آتے ہیں۔ جامع الأخبار، ص۳۷۸

↑ امام علی علیہ‌السلاماِذا قَطَّعُوا الأْرحامَ جُعِلَتِ الأْمْوالُ فی أیدی الأْشْرارِ؛ جب بھی لوگ رشتہ داروں سے تعلقات ختم کرینگے تو ثروت برے لوگوں کے ہاتھ آئے گی۔ کافی، ج ۲، ص۳۴۸، ح ۸

↑ روی عن النبی: لَا تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ عَلَی قَوْمٍ فِیهِمْ قَاطِعُ الرَّحِمِ؛ جس قوم میں رشتہ داروں سے رابطہ قطع کرنے والا کوئی ہو تو اللہ اس قوم سے رحمت کو روکتا ہے۔ مستدرک الوسایل ج۱۵ ص۱۸۴

↑ صلة الرحم و قطیعتہا، صص۲۹-۵۱

↑ صلة الرحم و قطیعتہا، صص۶۵-۷۹

↑ سایت پاسخگو

↑ پورتال انہار

↑ سایت انہار

↑ صلة الرحم و قطیعتہا، صص ۹۲-۱۱۸

↑ . مآخوذ از صراط النجاہ مرحوم تبریزی و خوئی، ج ۳، ص۲۹۴

↑ قرآن، إسراء، ۲۶.

↑ «فَمَن أتاه اللّه مالاً فلیصل به قرابَتَه»؛ نہج البلاغہ صبحی صالح، خطبہ ۱۴۲

↑ . توضیح المسائل مراجع، ج ۲، ص۷۷۲، س ۱۰۵۸

↑ . سورہ توبہ، آیہ ۱۱۳؛ مراجعہ کریں: طباطبائی، محمد حسین، المیزان، ج ۹ و ۱۰، ص۲۸۲، منشورات ذوی القربی، بی‌جا، بی‌تا.

↑ سورہ توبہ، آیہ ۱۱۴، «وَ ما کانَ اسْتِغْفارُ إِبْراهیمَ ِلأَبیهِ إِلاّ عَنْ مَوْعِدَهٍ وَعَدَها إِیاهُ فَلَمّا تَبَینَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوُّ لِلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْراهیمَ َلأَوّاهٌ حَلیمٌ»؛ اور ابراہیم کا استغفار ان کے باپ کے لئے صرف اس وعدہ کی بنا پر تھا جو انہوں نے اس سے کیا تھا اس کے بعد جب یہ واضح ہوگیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو اس سے بربَت اور بیزاری بھی کرلی کہ ابراہیم بہت زیادہ تضرع کرنے والے اور اِردبار تھے۔ سورہ ممتحنہ، آیہ ۴، «قَدْ کانَتْ لَکُمْ أُسْوَهٌ حَسَنَهٌ فی إِبْراهیمَ وَ الَّذینَ مَعَهُ إِذْ قالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنّا بُرَآؤُا مِنْکُمْ وَ مِمّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللّهِ کَفَرْنا بِکُمْ وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ الْعَداوَهُ وَ الْبَغْضاءُ أَبَدًا حَتّی تُؤْمِنُوا بِاللّهِ وَحْدَهُ إِلاّ قَوْلَ إِبْراهیمَ ِلأَبیهِ َلأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ وَ ما أَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّهِ مِنْ شَی ءٍ رَبَّنا عَلَیکَ تَوَکَّلْنا وَ إِلَیکَ أَنَبْنا وَ إِلَیکَ الْمَصیرُ». «تمہارے لئے بہترین نمونہ عمل ابراہیم علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں میں ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بیزار ہیں - ہم نے تمہارا انکار کردیا ہے اور ہمارے تمہارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ہے یہاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ علاوہ ابراہیم علیہ السّلام کے اس قول کے جو انہوں نے اپنے مربّی باپ سے کہہ دیا تھا کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا لیکن میں پروردگار کی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتا ہوں. خدایا میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کیا ہے اور تیری ہی طرف بازگشت بھی ہے ».



لہ رحمی کے درجے



















عصر جدید اور صلہ رحمی













صلہ رحمی اور کتابیں



حوالہ جات

↑ الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہ مِن بَعْدِ مِيثَاقِہِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَئِكَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ۔ ترجمہ: جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقتا خسارہ والے ہیں۔ بقرہ: ۲۷

↑ «فہل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ارحامکم اولئک الذین لعنہم اللہ فآصمہم و اعمی ابصار ہم»۔ ترجمہ: تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے (سورہ محمد، آیہ ۲۲ و ۲۳ )

↑ لغت نامہ دہخدا، ج۷، ص۱۰۵۱۹.

↑ لغت نامہ دہخدا، ج۱۴، ص۲۰۵۷۲.

↑ مستدرک سفینہ البحار، ج۴، ص۱۱۲.

↑ لغت نامہ دہخدا، ج۷، ص۱۰۵۱۹.

↑ طاہری خرم آبادی، صلة الرحم و قطیعتہا، ص۱۲، مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۰۷ق

↑ أنا الرحمنُ خلقتُ الرَّحم و شققتُ لها اسماً من اسمی فَمَن وَصَلَها وَصَلْتُه وَ مَنْ قَطَعَها قَطَعْتُه؛ بحارالانوار ج۴۷ ص۱۸۷

↑ سایت پاسخگو

↑ *جو لوگ کسی واسطے کے بغیر ماں باپ سے منسوب ہوتے ہیں جیسے بہن بھائی، اور جو واسطے کے ذریعے ان سے منسوب ہوتے ہیں جیسے پوتا اور چچازاد۔

جو لوگ نسبی رشتہ داری یا شرعی احکام کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ شادی نہیں کر سکتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ارحام میں سے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جن سے شریعت میں شادی ممنوع نہیں جیسے چچازاد وغیرہ تو وہ ایک دوسرے کے ارحام شمار نہیں ہوتے ہیں۔

ارحام، صرف ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کتاب میراث کی طبقہ بندی میں مدنظر مصادیق سمجھے جاتے ہیں۔

ارحام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنکا چوتھا جد مشترک ہو یعنی چار نسلوں کے بعد آپس میں مل جاتے ہیں۔ اسی لیے بھائی اور بہن، ان کی اولاد، چچااور اس کی اولاد، پھوپھی اور اس کی اولاد، ماموں اور اس کی اولاد، خالہ اور اس کی اولاد اور تمام وہ لوگ جو اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی نسبت رکھتے ہیں خواہ ان سے شادی کرنا جائز ہو یا نہ ہو ایک دوسرے سے ارث لیتے ہوں یا نہ ہوں دور کے رشتہ دار ہوں یا نزدیک کے ان سب کو ارحام کہا جاتا ہے۔

↑ سورہ اسراء آیہ نمبر 23۔ اور دوسری آیات کے لئے مشاہدہ کریں:رعد۲۱و۲۲و۲۳و۲۴، انعام ۱۵۱، بقرہ ۱۷۷، نساء ۸، مجادلہ ۲۲.

↑ عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۹۱

↑ حضرت رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:مَا مِن مُوْمِن یقْعُدُ سَاعَة عِنْدَ العَالِم الاَّ نَاداه رَبُّه : جَلَسْت الی حَبِیبِی ؟ وَعِزَّتِی و جَلاَلِی لاَسْکنْتُک الجَنَّة مَعَه۔ یعنی جو بھی مومن کسی عالم کے پاس ایک لمحہ بیٹھ جاتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے اسے ندا آتی ہے: کیا میرے حبیب کے پاس بیٹھے ہو؟ مجھے اپنی عزت اور جلالت کی قسم تجھے جنت میں اس کا ہمنشین بنا دونگا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: حُضُورُ مَجْلِس عَالِم، أفْضَل مِن حُضُورِ أَلْف جَنَازَة، وَ مِن عِیادَة ألْف مَرِیض، وَ مِن قِیام ألْف لَیلَة، وَ مِن صِیام ألْف یوْم ؛ ان اللهَ یطَاع بِالعِلْم، ویعْبَدُ بِالعِلْم، وَ خَیرُ الدُّنْیا وَ الا خِرَة مَع العِلْم : یعنی عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار تشییع جنازہ، ہزار مریضوں کی عیادت، ہزار راتوں کی شب بیداری اور ہزار دن روزہ رکھنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ علم ہی کے طفیل اللہ تعالی کی عبادت اور اطاعت ہوتی ہے اور دنیا و آخرت کی خیر و نیکی علم سے مربوط ہے۔»

↑ حجرات/۱۰

↑ کافی، ج۲، ۱ص۱۶۵

↑ سورہ نساء: آیہ 1

↑ سورہ بقرہ: آیہ 83

↑ سورہ نور: آیہ 22

↑ وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِکوا بِهِ شَیئًا وَ بِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا وَ بِذِی الْقُرْبَیٰ وَ الْیتَامَیٰ وَ الْمَسَاکینِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبَیٰ وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَ ابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَکتْ أَیمَانُکمْ إِنَّ اللَّـهَ لَا یحِبُّ مَن کانَ مُخْتَالًا فَخُورًا اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں, مسکینوں, قریب کے ہمسایہ, دور کے ہمسایہ, پہلو نشین, مسافر غربت زدہ, غلام و کنیز سب کے ساتھ نیک برتاؤ کرو کہ اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورہ نساءآیہ۳۶)

↑ ...أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلی بِبَعْضٍ فی کتابِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِکلِّ شَیءٍ عَلیمٌ۔۔۔اور قرابتدار کتابِ خدا میں سب آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ اوّلیت اور قربت رکھتے ہیں بیشک اللہ ہر شے کا بہترین جاننے والا ہے.(سورہ انفال،آیہ۷۵۔)

↑ وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلی بِبَعْضٍ فی کتابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنینَ وَ الْمُهاجِرینَ إِلاَّ أَنْ تَفْعَلُوا إِلی أَوْلِیائِکمْ مَعْرُوفاً کانَ ذلِک فِی الْکتابِ مَسْطُوراًاور مومنین و مہاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا چاہو تو کوئی بات نہیں ہے یہ بات کتابِ خدا میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ (سورہ احزاب، آیہ6 )

↑ فَهَلْ عَسَیتُمْ إِن تَوَلَّیتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَ تُقَطِّعُوا أَرْحَامَکمْ۔ أُولَـئِک الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ أَعْمَی أَبْصَارَهُمْ تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے۔ (سورہ محمد،آیہ ۲۲،۲۳)

↑ یسْأَلُونَک مَاذَا ینفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیرٍ فَلِلْوَالِدَینِ وَالْأَقْرَ بِینَ وَالْیتَامَیٰ وَالْمَسَاکینِ وَابْنِ السَّبِیلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِیمٌ پیغمبر یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ راسِ خدا میں کیا خرچ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ جو بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے والدینً قرابتدرً ایتامً مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہوگا اور جو بھی کار خیر کروگے خدا اسے خوب جانتا ہے۔ (سورہ بقرہ، آیہ،۲۱۵)

↑ روی عن النبی(ص): لَا تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ عَلَی قَوْمٍ فِیهِمْ قَاطِعُ الرَّحِمِ: اللہ تعالی اپنی رحمت کو اسی قوم سے روکتا ہے جو رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والی ہے۔ (مستدرک الوسایل ج۱۵ ص۱۸۴)

↑ بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۳۵،ح ۸۸ و ص۱۳۸،ح ۱۰۷

↑ . قست “اہمیت صلہ رحم در اسلام: مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج ۱، ص۱۵۶- ۱۵۸

↑ فِی خُطْبَةِ فَاطِمَةَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیهَا فَرَضَ اللَّهُ صِلَةَ الْأَرْحَامِ مَنْمَاةً لِلْعَدَد. (بحارالانوار ج۷۱ ص۹۴)

↑ سایت شبستان

↑ پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: جو بھی مجھے ایک چیز کی ضمانت دے میں اسے چار چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں۔ وہ صلہ رحمی انجام دے؛ تو اللہ اسے محبت، روزی میں اضافہ، عمر طولانی کرے گا اور جس بہشت کا وعدہ دیا ہے اس میں داخل کرے گا۔بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۳

↑ کسی نے آنحضرتؐ سے عرض کیا: میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن سے میں رابطے میں ہوں لیکن وہ مجھے ہمیشہ تکلیف پہنچاتے ہیں: اب میں چاہتا ہوں کہ ان سے دور ہوجاوں تو آپؐ نے فرمایا: جس نے تجھے محروم رکھا اسے محروم نہ کر؛ جو تم سے جدا ہوا اس سے تعلق ختم نہ کرنا، جس نے تجھ پر ستم ڈھایا اسے معاف کر، اگر ایسا کیا تو اللہ تعالی تمہارا حامی ہوگا۔بحار الانوار، ج ۷۴، ص۱۰۰

↑ پیامبر اکرمؐ:اَلصَّدَقَةُ عَلی وَجْهِها وَاصْطِناعُ الْمَعْروفِ وَ بِرُّ الْوالِدَینِ وَصِلَةُ الرَّحِمِ تُحَوِّلُ الشِّقاءَ سَعادَةً وَتَزیدُ فِی الْعُمْرِ وَ تَقی مَصارِ عَ السُّوءِ؛ ترجمہ: درست صدقہ، والدین سے نیکی اور صلہ رحمی بدبختی کو خوشبختی میں تبدیل کرتے ہیں اور عمر کو زیادہ کرتے ہیں اور برے حادثات سے روکتے ہیں۔نہج الفصاحہ، ح ۱۸۶۹

صر جدید اور صلہ رحمی

صلہ رحمی اور کتابیں

حوالہ جات

الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہ مِن بَعْدِ مِيثَاقِہِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَئِكَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ۔ ترجمہ: جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقتا خسارہ والے ہیں۔ بقرہ: ۲۷

«فہل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ارحامکم اولئک الذین لعنہم اللہ فآصمہم و اعمی ابصار ہم»۔ ترجمہ: تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے (سورہ محمد، آیہ ۲۲ و ۲۳ )

لغت نامہ دہخدا، ج۷، ص۱۰۵۱۹.

لغت نامہ دہخدا، ج۱۴، ص۲۰۵۷۲.

مستدرک سفینہ البحار، ج۴، ص۱۱۲.

لغت نامہ دہخدا، ج۷، ص۱۰۵۱۹.

طاہری خرم آبادی، صلة الرحم و قطیعتہا، ص۱۲، مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۰۷ق

أنا الرحمنُ خلقتُ الرَّحم و شققتُ لها اسماً من اسمی فَمَن وَصَلَها وَصَلْتُه وَ مَنْ قَطَعَها قَطَعْتُه؛ بحارالانوار ج۴۷ ص۱۸۷

سایت پاسخگو

*جو لوگ کسی واسطے کے بغیر ماں باپ سے منسوب ہوتے ہیں جیسے بہن بھائی، اور جو واسطے کے ذریعے ان سے منسوب ہوتے ہیں جیسے پوتا اور چچازاد۔

جو لوگ نسبی رشتہ داری یا شرعی احکام کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ شادی نہیں کر سکتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ارحام میں سے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جن سے شریعت میں شادی ممنوع نہیں جیسے چچازاد وغیرہ تو وہ ایک دوسرے کے ارحام شمار نہیں ہوتے ہیں۔

ارحام، صرف ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کتاب میراث کی طبقہ بندی میں مدنظر مصادیق سمجھے جاتے ہیں۔

ارحام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنکا چوتھا جد مشترک ہو یعنی چار نسلوں کے بعد آپس میں مل جاتے ہیں۔ اسی لیے بھائی اور بہن، ان کی اولاد، چچااور اس کی اولاد، پھوپھی اور اس کی اولاد، ماموں اور اس کی اولاد، خالہ اور اس کی اولاد اور تمام وہ لوگ جو اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی نسبت رکھتے ہیں خواہ ان سے شادی کرنا جائز ہو یا نہ ہو ایک دوسرے سے ارث لیتے ہوں یا نہ ہوں دور کے رشتہ دار ہوں یا نزدیک کے ان سب کو ارحام کہا جاتا ہے۔

سورہ اسراء آیہ نمبر 23۔ اور دوسری آیات کے لئے مشاہدہ کریں:رعد۲۱و۲۲و۲۳و۲۴، انعام ۱۵۱، بقرہ ۱۷۷، نساء ۸، مجادلہ ۲۲.

عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۹۱

حضرت رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:مَا مِن مُوْمِن یقْعُدُ سَاعَة عِنْدَ العَالِم الاَّ نَاداه رَبُّه : جَلَسْت الی حَبِیبِی ؟ وَعِزَّتِی و جَلاَلِی لاَسْکنْتُک الجَنَّة مَعَه۔ یعنی جو بھی مومن کسی عالم کے پاس ایک لمحہ بیٹھ جاتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے اسے ندا آتی ہے: کیا میرے حبیب کے پاس بیٹھے ہو؟ مجھے اپنی عزت اور جلالت کی قسم تجھے جنت میں اس کا ہمنشین بنا دونگا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: حُضُورُ مَجْلِس عَالِم، أفْضَل مِن حُضُورِ أَلْف جَنَازَة، وَ مِن عِیادَة ألْف مَرِیض، وَ مِن قِیام ألْف لَیلَة، وَ مِن صِیام ألْف یوْم ؛ ان اللهَ یطَاع بِالعِلْم، ویعْبَدُ بِالعِلْم، وَ خَیرُ الدُّنْیا وَ الا خِرَة مَع العِلْم : یعنی عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار تشییع جنازہ، ہزار مریضوں کی عیادت، ہزار راتوں کی شب بیداری اور ہزار دن روزہ رکھنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ علم ہی کے طفیل اللہ تعالی کی عبادت اور اطاعت ہوتی ہے اور دنیا و آخرت کی خیر و نیکی علم سے مربوط ہے۔»

حجرات/۱۰

کافی، ج۲، ۱ص۱۶۵

سورہ نساء: آیہ 1

سورہ بقرہ: آیہ 83

سورہ نور: آیہ 22

وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِکوا بِهِ شَیئًا وَ بِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا وَ بِذِی الْقُرْبَیٰ وَ الْیتَامَیٰ وَ الْمَسَاکینِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبَیٰ وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَ ابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَکتْ أَیمَانُکمْ إِنَّ اللَّـهَ لَا یحِبُّ مَن کانَ مُخْتَالًا فَخُورًا اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں, مسکینوں, قریب کے ہمسایہ, دور کے ہمسایہ, پہلو نشین, مسافر غربت زدہ, غلام و کنیز سب کے ساتھ نیک برتاؤ کرو کہ اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورہ نساءآیہ۳۶)

...أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلی بِبَعْضٍ فی کتابِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِکلِّ شَیءٍ عَلیمٌ۔۔۔اور قرابتدار کتابِ خدا میں سب آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ اوّلیت اور قربت رکھتے ہیں بیشک اللہ ہر شے کا بہترین جاننے والا ہے.(سورہ انفال،آیہ۷۵۔)

وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلی بِبَعْضٍ فی کتابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنینَ وَ الْمُهاجِرینَ إِلاَّ أَنْ تَفْعَلُوا إِلی أَوْلِیائِکمْ مَعْرُوفاً کانَ ذلِک فِی الْکتابِ مَسْطُوراًاور مومنین و مہاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا چاہو تو کوئی بات نہیں ہے یہ بات کتابِ خدا میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ (سورہ احزاب، آیہ6 )

فَهَلْ عَسَیتُمْ إِن تَوَلَّیتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَ تُقَطِّعُوا أَرْحَامَکمْ۔ أُولَـئِک الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ أَعْمَی أَبْصَارَهُمْ تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے۔ (سورہ محمد،آیہ ۲۲،۲۳)

یسْأَلُونَک مَاذَا ینفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیرٍ فَلِلْوَالِدَینِ وَالْأَقْرَ بِینَ وَالْیتَامَیٰ وَالْمَسَاکینِ وَابْنِ السَّبِیلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِیمٌ پیغمبر یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ راسِ خدا میں کیا خرچ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ جو بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے والدینً قرابتدرً ایتامً مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہوگا اور جو بھی کار خیر کروگے خدا اسے خوب جانتا ہے۔ (سورہ بقرہ، آیہ،۲۱۵)

روی عن النبی(ص): لَا تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ عَلَی قَوْمٍ فِیهِمْ قَاطِعُ الرَّحِمِ: اللہ تعالی اپنی رحمت کو اسی قوم سے روکتا ہے جو رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والی ہے۔ (مستدرک الوسایل ج۱۵ ص۱۸۴)

بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۳۵،ح ۸۸ و ص۱۳۸،ح ۱۰۷

. قست “اہمیت صلہ رحم در اسلام: مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج ۱، ص۱۵۶- ۱۵۸

فِی خُطْبَةِ فَاطِمَةَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیهَا فَرَضَ اللَّهُ صِلَةَ الْأَرْحَامِ مَنْمَاةً لِلْعَدَد. (بحارالانوار ج۷۱ ص۹۴)

سایت شبستان

پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: جو بھی مجھے ایک چیز کی ضمانت دے میں اسے چار چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں۔ وہ صلہ رحمی انجام دے؛ تو اللہ اسے محبت، روزی میں اضافہ، عمر طولانی کرے گا اور جس بہشت کا وعدہ دیا ہے اس میں داخل کرے گا۔بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۳

کسی نے آنحضرتؐ سے عرض کیا: میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن سے میں رابطے میں ہوں لیکن وہ مجھے ہمیشہ تکلیف پہنچاتے ہیں: اب میں چاہتا ہوں کہ ان سے دور ہوجاوں تو آپؐ نے فرمایا: جس نے تجھے محروم رکھا اسے محروم نہ کر؛ جو تم سے جدا ہوا اس سے تعلق ختم نہ کرنا، جس نے تجھ پر ستم ڈھایا اسے معاف کر، اگر ایسا کیا تو اللہ تعالی تمہارا حامی ہوگا۔بحار الانوار، ج ۷۴، ص۱۰۰

پیامبر اکرمؐ:اَلصَّدَقَةُ عَلی وَجْهِها وَاصْطِناعُ الْمَعْروفِ وَ بِرُّ الْوالِدَینِ وَصِلَةُ الرَّحِمِ تُحَوِّلُ الشِّقاءَ سَعادَةً وَتَزیدُ فِی الْعُمْرِ وَ تَقی مَصارِ عَ السُّوءِ؛ ترجمہ: درست صدقہ، والدین سے نیکی اور صلہ رحمی بدبختی کو خوشبختی میں تبدیل کرتے ہیں اور عمر کو زیادہ کرتے ہیں اور برے حادثات سے روکتے ہیں۔نہج الفصاحہ، ح ۱۸۶۹

نہج الفصاحہ، ح ۱۸۶۹

اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰

امام صادقؑ: صلہ رحمی، موت کو ٹالتی ہے؛ گھر میں محبت ایجاد کرتی ہے، قیامت کے دن حساب میں آسانی کرتی ہے؛ اور گناہوں کو کم کرتی ہے۔ پس اپنے رشتہ داروں سے رابطہ قایم کرو اور اپنے بھائیوں سے نیک سلوک کرو اگرچہ اچھی طرح سے سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۴

امام باقرؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے: «پل صراط کے دونوں طرف امانت اور صلۂ رحمی ہے۔ پس جس نے لوگوں کی امانت میں خیانت نہیں کی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس پل سے آسانی کے ساتھ عبور کرتا ہوا بہشت میں داخل ہوگا۔لیکن جس نے امانت میں خیانت کی اور رشتہ دار سے رابطہ قطع کیا اس کا کوئی اور عمل اس کے کام نہیں آیا گااور وہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۱۸.

بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۴

امام علیؑ:کفِّروا ذُنوبَکمْ وَتَحَبَّبوا اِلی رَبِّکمْ بِالصَّدَقَةِ وَ صِلَةِ الرَّحِمِ؛ صدقہ اور صلہ رحمی کے ذریعے اپنے گناہوں کو پاک کرو اور خود کو اپنے پروردگار کے محبوب بناو۔ غررالحکم، ح ۷۲۵۸

امام علیؑ: نعمتوں کی حفاظت صلہ رحمی میں نہاں ہے۔غررالحکم، ح ۴۹۲۹

بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۳.

«صلۃ الارحام تزکی الاعمال و تنمی الاموال و تدفع البلوی و تیسر الحساب و تنسی فی الاجل»، اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰

رسول اللہؐ کا ارشاد ہے: «صلۂ رحمی عمر کو اضافہ اور فقر کو ختم کرتی ہے۔بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۰۳.

اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰

پیامبر اکرمؐ کا فرمان ہے: جو شخص خود یا اپنے مال کو رشتہ داروں کی خدمت میں استعمال کرتا ہے، اللہ تعالی اسے سو شہیدوں کا اجر عطا کرتا ہے، اور اس راہ میں جو قدم اٹھاتا ہے چالیس ہزار حسنات عطا کرتا ہے اور چالیس ہزار گناہ معاف کرتا ہے اور اسی تعداد میں اس کے معنوی درجات کو بلند کرتا ہے۔۔۔۔ اور اس کی ستر دنیوی حاجات کو قبول کرتا ہے۔بحارالانوار، ج۷۳، ص۳۳۵.

امام علیؑ: زَکوةُ الْیسارِ بِرُّ الْجیرانِ وَ صِلَةُ الاَرحامِ؛ ہمسائیوں سے نیکی اور صلہ رحمی آسائشوں کی زکات ہے۔غررالحکم، ح ۵۴۵۳

امام صادقؑ: «صلہ رحمی اخلاق کو اچھا، ہاتھ کو دینے والا، جان کو پاکیزہ، روزی کو زیادہ، اور موت کو دور کرتی ہے۔»اصول کافی، ج۲، ص۱۵۱.

امام باقرؑ: اِنَّ اَعْجَلَ الْخَیرِ ثَواباً صِلَةُ الرَّحِمِ؛ ہر نیک کام سے پہلے صلہ رحمی کا ثواب انسان تک پہنچتا ہے۔ کافی، ج ۲، ص۱۵۲، ح ۱۵

پیامبر اکرمؐ:مَنْ مَشی اِلی ذی قَرابَةٍ بِنَفْسِهِ وَ مالِهِ لِیصِلَ رَحِمَهُ اَعْطاهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ اَجْرَ مِأَةِ شَهیدٍ؛ جو بھی جان اور مال کے ذریعے سے رشتہ داروں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالی اس کو سو شہید کا اجر دیتا ہے۔ من لایحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص۱۶

امام صادقؑ:«صلة الارحام تحسن الخلق و تسمح الکف و تطیب النفس و تزید فی الرزق و تنسئ الاجل»، کافی،ج۲، ص۱۵۰ و ۱۵۱

کافی،ج۲، ص۱۵۰ و ۱۵۱

کافی، ج۲، ص۱۵۰ و ۱۵۱

امام صادقؑ فرماتے ہیں: «صلہ رحمی کے علاوہ کسی اور چیز کا ہمیں علم نہیں جو (مستقیم)عمر کو زیادہ کرتی ہو۔ یہاں تک کہ اگر کسی کی عمر صرف تین سال باقی رہی ہو اور وہ صلہ رحمی کرنے والا ہو تو اللہ تعالی اس کی عمر میں تیس سال اور اضافہ کرتا ہے اور 33 سال زندہ رہتا ہے۔ اور کبھی کسی عمر 33 سال باقی ہے لیکن رشتہ دار سے رابطہ کاٹنے کی وجہ سے عمر کم ہوتی ہے اور تین سال کے بعد موت آجاتی ہے۔کافی، ج۲، ص۱۵۲

اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰

پیامبر اسلام(ص): رشتہ داروں سے رابطہ شہروں کو آباد کرتا ہے، عمروں کو زیادہ کرتا ہے، اگرچہ انجام دینے والے نیک لوگ نہ ہوں۔ سفینہ البحار، ج ۱، ص۵۱۴

امام سجادؑ نے ابوحمزہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: «اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالی تمہاری موت اچھی قرار دے اور قیامت کے دن تمہارے گناہ بخشدے تو پس تم نیکی کرو، چھپا کر صدقہ دو اور صلہ رحمی بجا لے آؤ، یقینا یہ انسان کی عمر کو زیادہ اور غربت کو ختم کرتی ہے۔ بحارالانوار، ج۹۳، ص۱۹۵.

کسی نے رسول خدا صلّی اللّہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا:... قَالَ فَقَالَ الرَّجُلُ فَأَی الْأَعْمَالِ أَبْغَضُ إِلَی اللَّهِ قَالَ الشِّرْک بِاللَّهِ قَالَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ قَطِیعَةُ الرَّحِم...؛ اللہ تعالی کے حضور سب سے منفور ترین کام کیا ہے؟ فرمایا: اللہ تعالی کا شریک ٹھہرانا۔ پھر کہا: شرک بعد کون سا عمل ہے؟ فرمایا: قطع رحمی۔۔۔۔ کافی، ج۵، ص۵۸

امام سجادؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پانچ قسم کے لوگوں سے بچے رہو، ان پانچ میں سے ایک گروہ رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والے ہیں: رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والی کی معاشرت سے بچے رہو کیونکہ قرآن نے اسے ملعون کہا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے دور قرار دیا ہے۔ سفینہ البحار، ج ۱، ص۵۱۴

پیامبر(ص): کوئی بھی ایسی اطاعت نہیں جس کی پاداش صلہ رحمی سے پہلے ملے اور ظلم اور قطع رحمی کی سزا کی طرح جلدی ملنے والی کوئی سزا نہیں ہے۔ نہج الفصاحہ، ح ۲۳۹۸

رسول اللہؐ کا فرمان ہے:ان ریح الجنة توجد من مسیرة ألف عام مایجدها عاق، و لاقاطع رحم... بحارالانوار، ج ۸ م باب الجنة و نعیمها، ح ۱۷۴

امام باقرؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے: امام باقرؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے: «پل صراط کے دونوں طرف امانت اور صلۂ رحمی ہے۔ پس جس نے لوگوں کی امانت میں خیانت نہیں کی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس پل سے آسانی کے ساتھ عبور کرتا ہوا بہشت میں داخل ہوگا۔لیکن جس نے امانت میں خیانت کی اور رشتہ دار سے رابطہ قطع کیا اس کا کوئی اور عمل اس کے کام نہیں آیا گااور وہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۱۸.

پیامبرؐ:کلُّ بَیتٍ لایدْخُلُ فیهِ الضَّیفُ لاتَدْخُلُهُ الْمَلائِکةُ؛ جس گھر میں مہمان نہیں آتے وہاں فرشتے نہیں آتے ہیں۔ جامع الأخبار، ص۳۷۸

امام علی علیہ‌السلاماِذا قَطَّعُوا الأْرحامَ جُعِلَتِ الأْمْوالُ فی أیدی الأْشْرارِ؛ جب بھی لوگ رشتہ داروں سے تعلقات ختم کرینگے تو ثروت برے لوگوں کے ہاتھ آئے گی۔ کافی، ج ۲، ص۳۴۸، ح ۸

روی عن النبی: لَا تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ عَلَی قَوْمٍ فِیهِمْ قَاطِعُ الرَّحِمِ؛ جس قوم میں رشتہ داروں سے رابطہ قطع کرنے والا کوئی ہو تو اللہ اس قوم سے رحمت کو روکتا ہے۔

صلہ رحمی کے برکات

امام باقر علیہ السلام:
*إِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ تُزَكِّى الْأَعْمَالَ وَ تُنْمِى الْأَمْوَالَ وَ تُيَسِّرُ الْحِسَابَ وَ تَدْفَعُ الْبَلْوَى وَ تَزِیدُ فِى الرِّزْقِ‏*

بیشک صلہ رحمی؛ اعمال کو پاک، مال میں اضافہ، حساب کو آسان، بلا کو دور اور رزق و روزی میں زیادی کا سبب بنتا ہے۔

📚اصول کافى جلد3 صفحه: 229۔

📝 موضوع :جو رشتہ دار قطع رحمى كرے اس سے صلہ رحمى كرنا

🔻حديث مبارك:
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قَالَ بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَهْلُ بَيْتِي أَبَوْا إِلَّا تَوَثُّباً عَلَيَّ وَ قَطِيعَةً لِي وَ شَتِيمَةً فَأَرْفُضُهُمْ قَالَ إِذاً يَرْفُضَكُمُ اللَّهُ جَمِيعاً قَالَ فَكَيْفَ أَصْنَعُ قَالَ تَصِلُ مَنْ قَطَعَكَ وَ تُعْطِي مَنْ حَرَمَكَ وَ تَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَكَ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ كَانَ لَكَ مِنَ اللَّهِ عَلَيْهِمْ ظَهِيرٌ.

🔹ترجمہ:

ابو عبداللہ عليہ السلام نے فرمايا كہ ايك شخص رسول خدا ﷺ كے پاس آيا اور كہنے لگا : يا رسول اللہ ﷺ ميرے خاندان والوں نے مجھ پر حملہ كيا اور مجھ سے قطع رحم كيا مجھے گالياں ديں ميں نے ان سے ميل جول ترك كر ديا ۔ فرمايا اس صورت ميں خداتم سب كو چھوڑ دے گا اس نے كہا پھر ميں كيا كروں؟ فرمايا جس نے قطع رحم كيا اس سے صلہ رحم كر جس نے تجھے حق سے محروم كيا ہے اس پر بخشش كر اور جس نے تجھ پر ظلم كيا ہے اس كو معاف كر اگر تم نے ايسا كيا تو خدا كى طرف سے تيرے لئے ان پر غلبہ حاصل ہوگا۔

🔸حوالہ:
الكافى، ج ۴ ، ص ۴۱ ، كتاب الايمان و الكفر ، باب الصلة الرحم ، حديث: ۲


ادامه مطلب
[ یکشنبه بیست و پنجم دی ۱۴۰۱ ] [ 21:46 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

*بدعت اور شک والے لوگ*
محمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، عن أحمد بن محمد بن أبي نصر، عن داود ابن سرحان، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): إذا رأيتم أهل الريب والبدع من بعدي فأظهر والبراءة منهم وأكثروا من سبهم والقول فيهم والوقيعة وباهتوهم كيلا يطمعوا في الفساد في الاسلام ويحذرهم الناس ولا يتعلمون من بدعهم يكتب الله لكم بذلك الحسنات ويرفع لكم به الدرجات في الآخرة.

*حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:جناب رسول خُداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب میرے بعد شک والوں اور بدعتی لوگوں کو دیکھو تو ان سے بیزاری ظاہر کرو۔اور ان کو بہت بُرابھلا کہو،اور انکی غیبت وگلاگوئی کرو۔اور ان پر بہتان لگا کر بدنام کرو۔تاکہ وہ اسلام میں فساد نہ پھیلا سکیں۔اور لوگ ان سے ان کی بدعتیں نہ سیکھیں ۔ایسا کرنے سے خدا تمہارے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھے گا۔اور اسکی وجہ سے آخرت میں تمہارے درجے بلند کرےگا۔*

اس حدیث کی سند صحیح ہے۔مراۃ العقول:ج11:ص77
الکافی:ج2:ص375
وسائل الشیعہ:ج16:ص265

[ چهارشنبه پانزدهم مرداد ۱۳۹۹ ] [ 11:11 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

كِتَابُ الْعِشْرَةِ
بَابُ مَا يَجِبُ مِنَ الْمُعَاشَرَةِ
1- عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَدِيدٍ عَنْ مُرَازِمٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ عَلَيْكُمْ بِالصَّلَاةِ فِي الْمَسَاجِدِ- وَ حُسْنِ الْجِوَارِ لِلنَّاسِ‏  وَ إِقَامَةِ الشَّهَادَةِ وَ حُضُورِ الْجَنَائِزِ إِنَّهُ لَا بُدَّ لَكُمْ مِنَ النَّاسِ إِنَّ أَحَداً لَا يَسْتَغْنِي عَنِ النَّاسِ حَيَاتَهُ وَ النَّاسُ لَا بُدَّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ.


۱۔فرمایا ابو عبد اللہ (ع) نے مسجدوں میں نماز پڑھنا، پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کرنا، سچی گواہی دینا، جنازوں میں حاضر ہونا اپنے لئے لازم قرار دو تم کو لوگوں کے ساتھ مل کر رہنا لازم ہے کیونکہ کوئی شخص بنی نوع انسان سے مستغنی نہیں ہو سکتا اپنی زندگی کے معاملات  میں ایک دوسرے سے تعلق رکھنا ضروری ہے۔

(اصول کافی مرحوم کلینی رہ ) جلد 4 صفحہ 447

[ شنبه بیست و چهارم خرداد ۱۳۹۹ ] [ 19:0 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

*بداخلاقی_کے_نتائج*

✨معصومین کرام علیہم السلام نے جہاں خوش اخلاقی کی بہت تعریف کی ہے اور لوگوں کو اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونے کی تاکید کی ہے وہیں بداخلاقی کے بدترین نتائج سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ لوگ ان سے بچنے یا ان کو چھوڑنے کی طرف قدم بڑھا سکیں۔ چند نقصانات مندرجہ ذیل ہیں:

*1️⃣ اعمال کی بربادی:*
 بد اخلاقی انسان کو حد اعتدال سے خارج کردیتی ہے، جو اس نے نیک اعمال کئے بھی ہیں ان کی اہمیت کو کم کردیتی ہے۔

*🌷حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:*

🔴إنَّ سُوءَ الْخُلُقِ لَيُفْسِدُ الْعَمَلَ كَمَا يُفْسِدُ الْخَلُّ الْعَسَل
🔵بیشک بداخلاقی عمل کو برباد کر ڈالتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔ 

📚الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2، ص321

*2️⃣ گناہوں کی گرفت میں، توبہ سے دور:*
 بداخلاقی حقیقت میں اتنی بری عادت ہے جب تک اس کا علاج نہیں ہوتا انسان گناہوں سے چھٹکارا نہیں پاتا اور توبہ کی توفیق نہیں مل پاتی۔

*🌷حضرت رسول خدا صلّی اللّہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا:*

🔴يا عَلِيُّ لِكُلِّ ذَنْبٍ تَوْبَةٌ إِلَّا سُوءَ الْخُلُقِ‏ فَإِنَّ صَاحِبَهُ كُلَّمَا خَرَجَ مِنْ ذَنْبٍ دَخَلَ فِي ذَنْب 
🔵یا علی! ہر گناہ کے لئے توبہ ہے سوائے بداخلاقی کے کیونکہ بداخلاق شخص ایک گناہ سے نکلتا ہے تو دوسرا گناہ کربیٹھتا ہے۔

📚من لا يحضره الفقيه، ج‏4، ص355

*3️⃣ بہشت سے دوری:*
 بداخلاقی سے جب اچھے کاموں پر پانی پھیر دیا جائے تو بہشت کی تمنّا بیکار ہوگی اور ہولناک عذاب سے بچنے کے راستے مسدود ہوتے دکھائی پڑیں گے۔

*🌷حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا:* 

🔴علَيْكُمْ بِحُسْنِ الْخُلُقِ فَإِنَّ حُسْنَ الْخُلُقِ فِي الْجَنَّةِ لَا مَحَالَةَ وَ إِيَّاكُمْ وَ سُوءَ الْخُلُقِ‏ فَإِنَّ سُوءَ الْخُلُقِ‏ فِي النَّارِ لَا مَحَالَةَ 
🔵تم پر لازم ہے کہ حسن خلق اختیار کرو کیونکہ حسن خلق کا انجام جنت ہے اور برے اخلاق سے دور رہو کیونکہ برا اخلاق کا انجام جہنم ہے۔ 

📚عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏2، ص31

✨نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں کہا گیا: إِنَّ فُلَانَةَ تَصُومُ النَّهَارَ وَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَ هِيَ سَيِّئَةُ الْخُلُقِ تُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا فَقَالَ لَا خَيْرَ فِيهَا هِيَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ  فلاں عورت دنوں میں روزہ رکھتی ہے راتوں میں نماز پڑھا کرتی ہے ساتھ ساتھ بداخلاق بھی ہے، پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف پہونچاتی ہے۔ فرمایا: اس میں کوئی خیر نہیں ہے وہ دوزخیوں میں سے ہے۔

📚بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏68 ؛ ص394

*4️⃣ خسران دنیا و آخرت:* بداخلاقی سے دنیا بھی جاتی اور آخرت بھی، دنیا میں اسے چین نہیں ملتا اور آخرت میں رضائے الہی سے محروم رہتا ہے۔

*🌷حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا:* 

🔴إنَّ جَبْرَئِيلَ الرُّوحَ الْأَمِينَ نَزَلَ عَلَيَّ مِنْ عِنْدِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ- عَلَيْكَ بِحُسْنِ الْخُلُقِ فَإِنَّ سُوءَ الْخُلُقِ ذَهَبَ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة 
🔵جبرئیل امین خدا کی جانب سے مجھ پر نازل ہوئے اور فرمایا: اے محمد! آپ پر لازم ہے کہ اچھا اخلاق اختیار کریں کیونکہ برا اخلاق دنیا و آخرت کی نیکی کو برباد کردیتا ہے۔

📚وسائل الشيعة، ج‏12، ص241

*5️⃣ زندگی کی بہت بڑی الجھن:*
بداخلاقی زندگی کو نیست و نابود کردیتی ہے، کیونکہ بداخلاق کو سماج و معاشرہ، گھر، خانوادہ برداشت نہیں کرتا، اور اس کی زندگی سے طراوت و تازگی جاتی رہتی ہے۔

*🌷حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:*

🔴سوءُ الْخُلُقِ نَكَدُ الْعَيْشِ وَ عَذَابُ النَّفْسِ. 
🔵بداخلاقی زندگی کے سخت ہوجانے اور نفس و جان کے عذاب کا سبب ہے۔ 

📚تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص264

*6️⃣ ہمیشہ کا عذاب:*
 بداخلاقی ایسی بری صفتوں میں سے ہے جس میں مبتلا ہونے والے کی زندگی اجیرن ہوتی ہے اور طبیعت اکتائی سی رہتی ہے، جو خود ایک طرح کا عذاب ہے۔

*🌷حضرت امام صادق علیہ السلام نے فریایا:* 

🔴منْ أَسَاءَ خُلُقَهُ عَذَّبَ نَفْسَهُ.
🔵جو شخص اپنے اخلاق کو خراب کرتا ہے خود کو عذاب دیتا ہے۔ 

📚الأمالي( للصدوق)، ص205

*7️⃣ رزق و روزی کی تنگی:* بداخلاقی اور تندخوئی سے برکت الہی بھی سلب ہوجاتی ہے اور ایسے شخص سے عام طور پر لوگ خوش نہیں رہتے تو اس سے معاملات میں ہچکچاہٹ لازمی ہے، احسانات اور مہربانیاں بھی اسکے شامل حال نہیں رہتیں۔

*🌷حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:*

🔴منْ سَاءَ خُلُقُهُ ضَاقَ رِزْقُه‏
🔵جسکا اخلاق برا ہو اس کی روزی کم ہوتی ہے۔

📚تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص264

*8️⃣ خدا سے دوری:*

*حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا:*

🔴يا أَبَا ذَرٍّ لَا يَزَالُ الْعَبْدُ يَزْدَادُ مِنَ اللَّهِ بُعْداً مَا سَاءَ خُلُقُه‏
🔵اے ابوذر جب تک بندے کا اخلاق برا ہوتا ہے وہ مسلسل خدا سے دور ہوتا جاتا ہے۔

📚مكارم الأخلاق، ص467

 *🕌⛵سفینه النجاه⛵🕌*

[ چهارشنبه بیست و یکم خرداد ۱۳۹۹ ] [ 12:58 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

 *شوہر کی رضایت بہترین شفاعت*

 امام باقر ع نے فرمایا
 : لَا شَفِيعَ لِلْمَرْأَةِ أَنْجَحُ عِنْدَ رَبِّهَا مِنْ رِضَا زَوْجِهَا (۱)
عورت کیلئے شوہر کی رضایت سے بڑھ کر کوئی شفاعت نہیں الله تعالى كے نزديك۔ پس وہ خواتین خوش قسمت ہیں جو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے شوہرسے عشق و محبت کرتی ہیں اور ان کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔امام باقر (ع) روایت کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین (ع)نے فاطمہ زہرا (س) کی شہادت کے بعد جنازے کیساتھ کھڑے ہوکر فرمایا :اللھم انّی راضٍ عن ابنة نبیّک اللھم انّھا قد اوحشت فآنسھا(2)
۔ یا اللہ: یہ تیرے نبی کی بیٹی فاطمہ ہے میں ان پر اپنی رضایت کا اعلان کرتا ہوں اے میرے اللہ تو اسے وحشت قبرکے عذاب سے محفوظ فرما۔ اے اللہ ! ان پر لوگوں نے ظلم کئے ہیں تو خود فاطمہ(س) اور ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کر۔ان تمام مطالب سے جو درس ملتا ہے وہ یہ ہے کی خواتین کیلئے شوہر کی رضایت اور شفاعت بلندی درجات کا باعث ہے۔ جہاں فاطمہ(س) خود شفیعہ محشر ہونے کے باوجود اپنے شوہر کی رضایت طلب کررہی ہے تو وہاں ہماری ماں بہنوں کو بھی چاہئیے کہ اپنے اپنے شوہر کی رضایت کو ملحوظ نظر رکھیں تاکہ عاقبت بخیر ہو۔
ثواب میں مردوں کے برابراسلامی معاشرے میں خواتین کو بڑا مقام حاصل ہے،جن کی روایتوں میں بہت ہی توصیف کی گئی ہے اور ثواب میں بھی مردوں کے برابر کے شریک ہیں۔
فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ص ذَهَبَ الرِّجَالُ بِكُلِّ خَيْرٍ فَأَيُّ شَيْ‏ءٍ لِلنِّسَاءِ الْمَسَاكِينِ فَقَالَ ع بَلَى إِذَا حَمَلَتِ الْمَرْأَةُ كَانَتْ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْمُجَاهِدِ بِنَفْسِهِ وَ مَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِذَا وَضَعَتْ كَانَ لَهَا مِنَ الْأَجْرِ مَا لَا يَدْرِي أَحَدٌ مَا هُوَ لِعِظَمِهِ فَإِذَا أَرْضَعَتْ كَانَ لَهَا بِكُلِّ مَصَّةٍ كَعِدْلِ عِتْقِ مُحَرَّرٍ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِيلَ فَإِذَا فَرَغَتْ مِنْ رَضَاعِهِ ضَرَبَ مَلَكٌ كَرِيمٌ عَلَى جَنْبِهَا وَ قَالَ اسْتَأْنِفِي الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَكِ (3)ام المؤمنین حضرت امّ سلمہ(رض) نے ایک دن رسول خدا (ص)سے عرض کیا؛ یا رسول اللہ(ص)! مرد حضرات تمام نیکیاں بجا لاتے ہیں اور سارا ثواب کماتے ہیں لیکن ہم بیچاری عورتوں کیلئے بھی کوئی ثواب ہے؟ تو فرمایا:ہاں جب عورت حاملہ ہوجاتی ہے تو اس کیلئے دن کو روزہ رکھنے اور رات کو عبادتوں میں گذارنے کا ثواب اور اپنی جان و مال کیساتھ راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاھد کا ثواب دیا جائے گا۔ اور جب بچّہ جنم دیگی تو اسے اتنا ثواب عطا کریگا کہ کوئی بھی شمار کرنے والا شمار نہیں کرسکتا۔اور جب اپنے بچّے کو دودھ پلانے لگے گی تو بچّے کے ایک ایک گھونٹ لینے کے بدلے اولاد بنی اسرائیل میں سے ایک غلام ،خدا کی راہ میں آزاد کرنے کا ثواب عطا کرے گا۔اور جب دو سال پورے ہوجائیں اور دودھ پلاناچھوڑدے تو ایک فرشتہ آتا ہے اور اس عورت کے شانوںپر آفرین کہتے ہوئے تھپکی مارتا ہے اور خوش خبری دیتا ہے کہ اے کنیز خدا :تیرے سارے گناہ معاف ہوچکے اب اچھے اور شائستہ عمل اور کردار کے ساتھ تو نئی زندگی شروع کر۔
*والسلام ساجد علي*
*نجف الاشرف عراق*
—————-
1 ۔ وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۲۲۲۔ بحار الانوار،ج١٠٣، ص٢٥٦۔
2۔ وسائل الشیعہ ،ج۲۱، ص۴۵۱۔
3 ۔ تہذیب الاحکام،ج۷، ص۴۷۰
[6/9, 10:48] سید گلفام عباس کاظمی: *🌹بیوی کی ذمداریاں🌹*

*🌴۱:شوہر داري'' يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال🌴*

بيوى بننا كوئي معمولى اور آسان كام نہيں كہ جسے ہر نادان اور نااہل لڑكى بخوبى نبھا سكے_
بلكہ اس كے لئے سمجھدارى ، ذوق و سليقہ اور ايک خاص دانشمندى و ہوشيارى كى ضرورت ہوتى ہے _
جو عورت اپنى شوہر كے دل پر حكومت كرنا چاہتى ہے تو اسے چاہئے كہ:
اس كى خوشى و مرضى كے اسباب فراہم كرے،
اس كے اخلاق و كردار اور طرز سلوک پر توجہ دے،
اور اسے اچھے كاموں كى ترغيب دلائے ،
اور برے كاموں سے روكے،
اس كى صحت و سلامتى اور اس كے كھانے پينے كا خيال ركھے،
اور اسے ايک باعزت ، محبوب اور مہربان شوہر بنانے كى كوشش كرے،،،
تا كہ وہ اس كے خاندان كا بہترين سرپرست اور اس كے بچوّں كا بہتريں باپ اور مربى ثابت ہو _
خداوند عالم نے عورت كو ايک غير معمولى قدر و صلاحيت عطا فرمائي ہے _
خاندان كى سعادت و خوش بختى اس كے ہاتھ ميں ہوتى ہے اور خاندان كى بدبختى بھى اس كے ہاتھ ميں ہوتى ہے _

عورت چاہے تو اپنے گھر كو جنت كا نمونہ بنا سكتى ہے اور چاہے تو اسے جہنّم ميں بھى تبديل كرسكتى ہے،
وہ اپنے شوہر كو ترقى كى بلنديوں پر بھى پہونچا سكتى ہے ،
اور تنزلى كى طرف بھى لے جا سكتى ہے،
عورت اگر ''شوہر داري'' كے فن سے بخوبى واقف ہو اور خدا نے اس كے لئے جو فرائض مقرر فرمائے ہيں انھيں پورا كرے تو ايک عام مرد كو بلكہ ايک نہايت معمولى اور نا اہل مرد كو ايک لائق اور باصلاحيت شوہر ميں تبديل كر سكتى ہے _

*ايک دانشور (عالم) لكھتا ہے :*
عورت ايک عجيب و غريب طاقت كى مالک ہوتى ہے وہ قضا و قدر كى مانند ہے وہ جو چاہے وہى بن سكتى ہے _ (١)

*اسمايلز كہتا ہے :*
 اگر كسى فقير اور بے مايہ شخص كے گھر ميں خوش اخلاق اور متقى و نيک عورت موجود ہو تو وہ اس گھر كو آسائش و فضيلت اور خوش نصيبى كى جگہ بناديتى ہے _

*نيپولين كہتا ہے :*
 اگر كسى قوم كى ترقى و تمدن كا اندازہ لگانا ہوتو اس قوم كى خواتين كو ديكھو ''_

اسلام ميں بيوى كے فرائض كو اس قدر اہميت دى گئی ہے كہ اس كو خدا كى راہ ميں جہاد سے تعبير كيا گيا ہے _

*حضرت على (ع) فرماتے ہيں :*
عورت كا جہاد يہى ہے كہ وہ بحيثيت بیوى اپنے فرائض كو بخوبى انجام دے _ (٢)

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اسلام كى عظمت و ترقى كے لئے اسلامى ممالک كا دفاع كرنے اور سماج ميں عدل و انصاف قائم كرنے كے لئے خدا كى راہ ميں جہاد ، ايک بہت بڑى عبادت شمار كيا جاتا ہے يہ بات بخوبى واضح ہوجاتى ہے كہ عورت كے لئے شوہر كى ديكھ بھال كرنا اور اپنے فرائض كو انجام دينا كتنا اہم كام ہے _

*رسول خدا(ص) فرماتے ہيں :* جس عورت كو ايسى حالت ميں موت آجائے كہ اس كا شوہر اس سے راضى و خوش ہو ، اسے بہشت نصيب ہوگى _ (٣)

*حضرت رسول خدا (ص) كا يہ بھى ارشاد ہے كہ:*
عورت ، خدا كے حق كو ادا نہيں كرسكتى جب تک كہ وہ بحيثيت شريک زندگى اپنے فرائض كو بخوبى ادا نہ دے _ (٤)
___________؛
١_ كتاب'' در آغوش خوش بختي'' ص 142
٢_ بحار الانوارج 103 ص 254
٣_ محجة البيضائ: تاليف : محمد بن المرتضى معروف بہ ملا محسن فيض كاشانى ( م سنہ 1000 ھ) ج 2 ص 70
٤_ مستدرك الوسائل ، تاليف : ميرزا حسين النورى الطّبرسى _ ج 2 ص 552
 

[ سه شنبه بیستم خرداد ۱۳۹۹ ] [ 11:47 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

 *شوہر کی رضایت بہترین شفاعت*

 امام باقر ع نے فرمایا
 : لَا شَفِيعَ لِلْمَرْأَةِ أَنْجَحُ عِنْدَ رَبِّهَا مِنْ رِضَا زَوْجِهَا (۱)
عورت کیلئے شوہر کی رضایت سے بڑھ کر کوئی شفاعت نہیں الله تعالى كے نزديك۔ پس وہ خواتین خوش قسمت ہیں جو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے شوہرسے عشق و محبت کرتی ہیں اور ان کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔امام باقر (ع) روایت کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین (ع)نے فاطمہ زہرا (س) کی شہادت کے بعد جنازے کیساتھ کھڑے ہوکر فرمایا :اللھم انّی راضٍ عن ابنة نبیّک اللھم انّھا قد اوحشت فآنسھا(2)
۔ یا اللہ: یہ تیرے نبی کی بیٹی فاطمہ ہے میں ان پر اپنی رضایت کا اعلان کرتا ہوں اے میرے اللہ تو اسے وحشت قبرکے عذاب سے محفوظ فرما۔ اے اللہ ! ان پر لوگوں نے ظلم کئے ہیں تو خود فاطمہ(س) اور ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کر۔ان تمام مطالب سے جو درس ملتا ہے وہ یہ ہے کی خواتین کیلئے شوہر کی رضایت اور شفاعت بلندی درجات کا باعث ہے۔ جہاں فاطمہ(س) خود شفیعہ محشر ہونے کے باوجود اپنے شوہر کی رضایت طلب کررہی ہے تو وہاں ہماری ماں بہنوں کو بھی چاہئیے کہ اپنے اپنے شوہر کی رضایت کو ملحوظ نظر رکھیں تاکہ عاقبت بخیر ہو۔
ثواب میں مردوں کے برابراسلامی معاشرے میں خواتین کو بڑا مقام حاصل ہے،جن کی روایتوں میں بہت ہی توصیف کی گئی ہے اور ثواب میں بھی مردوں کے برابر کے شریک ہیں۔
فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ص ذَهَبَ الرِّجَالُ بِكُلِّ خَيْرٍ فَأَيُّ شَيْ‏ءٍ لِلنِّسَاءِ الْمَسَاكِينِ فَقَالَ ع بَلَى إِذَا حَمَلَتِ الْمَرْأَةُ كَانَتْ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْمُجَاهِدِ بِنَفْسِهِ وَ مَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِذَا وَضَعَتْ كَانَ لَهَا مِنَ الْأَجْرِ مَا لَا يَدْرِي أَحَدٌ مَا هُوَ لِعِظَمِهِ فَإِذَا أَرْضَعَتْ كَانَ لَهَا بِكُلِّ مَصَّةٍ كَعِدْلِ عِتْقِ مُحَرَّرٍ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِيلَ فَإِذَا فَرَغَتْ مِنْ رَضَاعِهِ ضَرَبَ مَلَكٌ كَرِيمٌ عَلَى جَنْبِهَا وَ قَالَ اسْتَأْنِفِي الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَكِ (3)ام المؤمنین حضرت امّ سلمہ(رض) نے ایک دن رسول خدا (ص)سے عرض کیا؛ یا رسول اللہ(ص)! مرد حضرات تمام نیکیاں بجا لاتے ہیں اور سارا ثواب کماتے ہیں لیکن ہم بیچاری عورتوں کیلئے بھی کوئی ثواب ہے؟ تو فرمایا:ہاں جب عورت حاملہ ہوجاتی ہے تو اس کیلئے دن کو روزہ رکھنے اور رات کو عبادتوں میں گذارنے کا ثواب اور اپنی جان و مال کیساتھ راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاھد کا ثواب دیا جائے گا۔ اور جب بچّہ جنم دیگی تو اسے اتنا ثواب عطا کریگا کہ کوئی بھی شمار کرنے والا شمار نہیں کرسکتا۔اور جب اپنے بچّے کو دودھ پلانے لگے گی تو بچّے کے ایک ایک گھونٹ لینے کے بدلے اولاد بنی اسرائیل میں سے ایک غلام ،خدا کی راہ میں آزاد کرنے کا ثواب عطا کرے گا۔اور جب دو سال پورے ہوجائیں اور دودھ پلاناچھوڑدے تو ایک فرشتہ آتا ہے اور اس عورت کے شانوںپر آفرین کہتے ہوئے تھپکی مارتا ہے اور خوش خبری دیتا ہے کہ اے کنیز خدا :تیرے سارے گناہ معاف ہوچکے اب اچھے اور شائستہ عمل اور کردار کے ساتھ تو نئی زندگی شروع کر۔
*والسلام ساجد علي*
*نجف الاشرف عراق*
—————-
1 ۔ وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۲۲۲۔ بحار الانوار،ج١٠٣، ص٢٥٦۔
2۔ وسائل الشیعہ ،ج۲۱، ص۴۵۱۔
3 ۔ تہذیب الاحکام،ج۷، ص۴۷۰
[6/9, 10:48] سید گلفام عباس کاظمی: *🌹بیوی کی ذمداریاں🌹*

*🌴۱:شوہر داري'' يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال🌴*

بيوى بننا كوئي معمولى اور آسان كام نہيں كہ جسے ہر نادان اور نااہل لڑكى بخوبى نبھا سكے_
بلكہ اس كے لئے سمجھدارى ، ذوق و سليقہ اور ايک خاص دانشمندى و ہوشيارى كى ضرورت ہوتى ہے _
جو عورت اپنى شوہر كے دل پر حكومت كرنا چاہتى ہے تو اسے چاہئے كہ:
اس كى خوشى و مرضى كے اسباب فراہم كرے،
اس كے اخلاق و كردار اور طرز سلوک پر توجہ دے،
اور اسے اچھے كاموں كى ترغيب دلائے ،
اور برے كاموں سے روكے،
اس كى صحت و سلامتى اور اس كے كھانے پينے كا خيال ركھے،
اور اسے ايک باعزت ، محبوب اور مہربان شوہر بنانے كى كوشش كرے،،،
تا كہ وہ اس كے خاندان كا بہترين سرپرست اور اس كے بچوّں كا بہتريں باپ اور مربى ثابت ہو _
خداوند عالم نے عورت كو ايک غير معمولى قدر و صلاحيت عطا فرمائي ہے _
خاندان كى سعادت و خوش بختى اس كے ہاتھ ميں ہوتى ہے اور خاندان كى بدبختى بھى اس كے ہاتھ ميں ہوتى ہے _

عورت چاہے تو اپنے گھر كو جنت كا نمونہ بنا سكتى ہے اور چاہے تو اسے جہنّم ميں بھى تبديل كرسكتى ہے،
وہ اپنے شوہر كو ترقى كى بلنديوں پر بھى پہونچا سكتى ہے ،
اور تنزلى كى طرف بھى لے جا سكتى ہے،
عورت اگر ''شوہر داري'' كے فن سے بخوبى واقف ہو اور خدا نے اس كے لئے جو فرائض مقرر فرمائے ہيں انھيں پورا كرے تو ايک عام مرد كو بلكہ ايک نہايت معمولى اور نا اہل مرد كو ايک لائق اور باصلاحيت شوہر ميں تبديل كر سكتى ہے _

*ايک دانشور (عالم) لكھتا ہے :*
عورت ايک عجيب و غريب طاقت كى مالک ہوتى ہے وہ قضا و قدر كى مانند ہے وہ جو چاہے وہى بن سكتى ہے _ (١)

*اسمايلز كہتا ہے :*
 اگر كسى فقير اور بے مايہ شخص كے گھر ميں خوش اخلاق اور متقى و نيک عورت موجود ہو تو وہ اس گھر كو آسائش و فضيلت اور خوش نصيبى كى جگہ بناديتى ہے _

*نيپولين كہتا ہے :*
 اگر كسى قوم كى ترقى و تمدن كا اندازہ لگانا ہوتو اس قوم كى خواتين كو ديكھو ''_

اسلام ميں بيوى كے فرائض كو اس قدر اہميت دى گئی ہے كہ اس كو خدا كى راہ ميں جہاد سے تعبير كيا گيا ہے _

*حضرت على (ع) فرماتے ہيں :*
عورت كا جہاد يہى ہے كہ وہ بحيثيت بیوى اپنے فرائض كو بخوبى انجام دے _ (٢)

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اسلام كى عظمت و ترقى كے لئے اسلامى ممالک كا دفاع كرنے اور سماج ميں عدل و انصاف قائم كرنے كے لئے خدا كى راہ ميں جہاد ، ايک بہت بڑى عبادت شمار كيا جاتا ہے يہ بات بخوبى واضح ہوجاتى ہے كہ عورت كے لئے شوہر كى ديكھ بھال كرنا اور اپنے فرائض كو انجام دينا كتنا اہم كام ہے _

*رسول خدا(ص) فرماتے ہيں :* جس عورت كو ايسى حالت ميں موت آجائے كہ اس كا شوہر اس سے راضى و خوش ہو ، اسے بہشت نصيب ہوگى _ (٣)

*حضرت رسول خدا (ص) كا يہ بھى ارشاد ہے كہ:*
عورت ، خدا كے حق كو ادا نہيں كرسكتى جب تک كہ وہ بحيثيت شريک زندگى اپنے فرائض كو بخوبى ادا نہ دے _ (٤)
___________؛
١_ كتاب'' در آغوش خوش بختي'' ص 142
٢_ بحار الانوارج 103 ص 254
٣_ محجة البيضائ: تاليف : محمد بن المرتضى معروف بہ ملا محسن فيض كاشانى ( م سنہ 1000 ھ) ج 2 ص 70
٤_ مستدرك الوسائل ، تاليف : ميرزا حسين النورى الطّبرسى _ ج 2 ص 552
 

[ سه شنبه بیستم خرداد ۱۳۹۹ ] [ 11:47 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

🎋 سعادت مندی

 حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا: 
*سات قسم کے لوگوں کے سامنے، سات کاموں کو چهپاو تاکہ سعادتمند بنو:*

۱- غریب و فقیر کے سامنے، اپنے ﻣﺎل و دولت کی نمائش نہ کرو...
2-بیمار کے سامنے اپنی صحت و ﺳﻼﻣﺘﯽ کی بات نہ کرو...
3-کمزور و ﻧﺎﺗﻮاں، کے سامنے طاقت کا مظاہرہ نہ کرو...
4-پریشان شخص کے  سامنے، ﺧﻮشی کا اظہار نہ کرو...
5- قیدی کے سامنے, اپنی آزادی کا ذکر نہ کرو...
6- بےاولاد افراد کے سامنے، بچہ کا ذکر نہ کرو...
7-یتیم کے سامنے، ﺍپنے والدین کے بارے میں نہیں کہو ...

📚 ﺗﺤﻒ ﺍﻟﻌﻘﻮﻝ، ص ۱۶۷

 *اَللّهُــمَّ عَجـِّـل لِوَلیِّــکَ الفَــــرَج*

[ دوشنبه یکم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 19:11 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

*تواضع__و__فروتنی*_

          *بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ_*  

*یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙاَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا  یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ  یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ  وَاسِعٌ  عَلِیۡمٌ ﴿سورہ مائدہ آیۃ ۵۴﴾*

*اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص بھی اپنے دین سے پھر جائے گا تو (وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا کیونکہ) عنقریب اﷲ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جسے خدا دوست رکھتا ہوگا اور وہ خداکو دوست رکھتی ہوگی۔ وہ ایسے لوگ ہوں گے جو مؤمنین کے سامنے متواضع اور کفار                                                                                                                                     کے مقابلے میں طاقتور ہوں گے۔ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ سب خدا کا فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اوراﷲ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے. (سورہ مائدہ آیۃ۵۴)*

🌸 حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
1️⃣ خاندانی شرافت صرف تواضع ہی سے بنتی ہے۔(بحارالانوار جلد٦٩ص٦٠٩) 

2️⃣ افضل انسان وہ ہے جو بلندمرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود تواضع کرے۔(بحارالانوارجلد٧٧ص١٧٩)

4️⃣ اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو فضیلت کے باوجود خدا کی خوشنودی کے لئے فروتنی کرتا ہے اور غربت کے بغیر اپنے آپ کو خدا کی رضا کے لئے ذلیل سمجھتا ہے۔(بحارالانوارجلد٧٧ ص٩٠)

5️⃣ تواضع انسان کو بلند مرتبہ بنادیتی ہے لہذا تم تواضع کیا کرو خدا تمہیں بلند کردے گا۔(بحارالانوارجلد٧٥ص١١٩) 

5️⃣ جوشخص قدرت رکھنے کے باوجود تواضع اختیار کرتے ہوئے خوبصورت لباس نہ پہنے، خداوندتعالیٰ اسے شرافت کے لباس سے مزین فرمائے گا۔(بحارالانوارجلد٧١ص٤٢٥)

🌸 حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
6️⃣ تمہیں تواضع اختیار کرنی چاہئے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی عبادت ہے۔(بحارالانوارجلد٧٥ص١١٩)

7️⃣ شریف کی زینت تواضع ہے۔(بحارالانوارجلد٧٥ص١٢٠)

8️⃣ ۔جوشخص کسی مالدار کے پاس آئے اور اس کی دولت کی وجہ سے اس سے تواضع سے پیش آئے،اس کا دوتہائی دین رخصت ہوجاتاہے۔(نہج البلاغہ حکمت ٢٢٨)

9️⃣ تواضع برتنے سے امور منظم ہوجاتے ہیں۔ (غررالحکم)

١٠۔تواضع تمہیں رعب اور دبدبہ سے مرصع کردیتی ہے۔(غررالحکم)

١١۔وسعت قلبی ہی سے تواضع حاصل ہوتی ہے۔(بحارالانوار جلد٧٨ص٧)

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا:
١٢۔آسمان میں دو فرشتوں کے ذمہ صرف یہ عبادت لگائی گئی ہے کہ جوشخص تواضع کرے اسے بلند کردیں اور جو تکبرکرے اسے پست کردیں۔(اصول کافی جلد٢ص١٢٢)

١٣۔تواضع یہ ہے کہ اگر کسی مجلس میں تمہاری شان سے کم جگہ بیٹھنے میں ملے تواسی پر بیٹھ جاؤ جس سے ملو اس پر سلام کرو،دوسروں پر بڑائی جتاناچھوڑ دوخواہ تم حق پر ہی کیوں نہ ہو اور سب نیکیوں سے بالا تر نیکی تواضع ہے۔(بحارالانوار جلد٧٨ص١٧٦)

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:
١٤۔اللہ تعالیٰ تواضع کرنے والوں کو ان کی تواضع کے مطابق بلند مرتبہ عطانہیں کرتا،بلکہ اپنی بزرگی اورعظمت کے مطابق ہی انہیں ترقی عطافرماتا ہے۔(بحارالانوارجلد٧٨ ص١٣٤)

*تواضع کا ثمرہ*
🌸 حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
1️⃣ اس قدر تواضع کرو کہ کوئی کسی پر بڑھنے نہ پائے ۔(تنبیہ الخواطرص٣٦٠)

🌸 حضرت علی علیہ السلام:
 2️⃣تواضع اختیار کرنے سے امور منظم ہوجاتے ہیں۔(غررالحکم)

3️⃣ جس کا دل تواضع کرتا ہے اس کا جسم خدا کی اطاعت کرنے سے نہیں اکتاتا۔(بحارالانوارجلد٧٨ ص٩ )

4️⃣ تواضع تمہیں رعب ودبدبہ سے مرصع کردیتی ہے۔ (غررالحکم)

✍🏽 تفسیر المعین. للواعظین المتعظین. ترجمہ: علامہ الشیخ محمد علی فراضل دامت برکاتہ


ادامه مطلب
[ دوشنبه یکم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 19:5 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

ایک ہزار حج سے بہتر 

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

قَضاءُ حاجَةِ الْمُؤْمِنِ افْضَلُ مِنْ الْفِ حَجَّةٍ مُتَقَبَّلةٍ بِمَناسِكِها وَ عِتْقِ الْفِ رَقَبَةٍ لِوَجْهِ اللّهِ وَ حِمْلانِ الْفِ فَرَسٍ فى سَبيلِ اللّهِ بِسَرْجِها وَ لَحْمِها.

 مؤمن کے حوائج اور ضروریات کو پورا کرنا ایک ہزار مقبول حجوں، اور ہزار غلاموں کی آزادی اور ایک ہزار گھوڑے راہ خدا میں دینے سے برتر و بالاتر ہے۔
                 
            أمـــالی الصــــدوق، صـــ 197

[ دوشنبه یکم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 19:4 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

🍂🌴🍃 
  🍃🌴  
🍁 
حضرت امام رضا (ع) کی نظر میں منتظرین امام مھدی موعود(عج) کے  وظایف:::

✅امام رضا(ع) فرماتے ہیں

💠انتظار فرج  چند چیزوں میں ہے:
✨صبر کرنا
✨گشاده‌رویی
✨همسایه‌داری
✨خوش‌ اخلاق ہونا
✨نیک اور اچھے کاموں کی ترویج ‌کرنا
✨ دوسروں کو اذیت اور تکلیف دینے سے اپنے آپ کو روکنا
✨مؤمنین کیساتھ مھربانی اور اچھا برتاؤ کرنا

📚. تحف‌العقول ص۴۱۵
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ؛ 

🌀 
🍂🌴  
🍂🍁🌀

[ دوشنبه یکم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 19:3 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

*ایسا ہوتا ہے حقیقی شیعہ*

آج کی حدیث: حقیقی شیعہ کیسے ہوتے ہیں؟

قال امام الصّادق(ع): علیکم بالتقوی الله و صدق الحدیث و اداء الامانة و حسن الصحبة لمن صحبکم و افشاء السلام و اطعام الطعام ، صلوا فی مساجدهم و عودوا مرضاهم و اتبعوا جنائزهم فان ابی حدثنی: ان شیعتنا اهل البیت کانوا خیار من کانوا منهم، ان کان فقیه کان منهم و ان کان امام کان منهم و کذلک ( کونوا ) احبّونا الی الناس و لاتبغّضونا الیهم

امام جعفر صادق(ع): میں تمہیں تقوی کی نصیحت کرتا ہوں اور سچ کہنے کی اور امانتوں کو ادا کرنے کی، اور جن سے بات کرتے ہو ان سے بہتر انداز میں بات کرنے کی اور بلند آواز میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کی اور (مساکین و ضرورتمندوں کو) کھانا کھلانے کی۔

ان (اہل سنّت) کی مساجد میں نماز پڑھا کرو اور ان کے مریضوں کی عیادت کیا کرو اور ان کے جنازوں میں شرکت کرو، کیونکہ میرے والد (امام باقر) نے مجھے حدیث سنائی کہ ہم اہل بیت(ع) کے شیعہ لوگوں میں سب سے بہترین ہیں، اگر لوگوں کے درمیان کوئی فقیہ ہو تو وہ ان (شیعوں) میں سے ہو، اور اگر کوئی امام (جماعت) ہو تو وہ ان شیعوں میں سے ہو۔ تم بھی ایسے ہی بنو۔

ایسے بنو جس سے لوگ ہم سے محبّت کرنے لگ جائیں اور ایسے ہرگز مت بنو جس سے لوگ ہم سے نفرت اور بغض کرنے لگ جائیں (یا بدظن ہو جائیں)۔

مستدرک الوسائل: ج8 ص 313

حقیقی شیعوں کی علامات :

ہمارے پانچویں امام حضرت محمد باقر علیہ السّلام نے ارشاد فرمايا :
ما شيعتنا إلا من اتقى الله وأطاعه وما كانوا يعرفون إلا بالتواضع والتخشع وأداء الأمانة و۔۔۔۔۔۔۔.

حقیقی شیعوں کی صفات اور خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.

*کوئی شخص بھی اس وقت تک ہمارا شیعہ نہیں ہوسکتا جب تک وہ تقوی الھی اختیار نہ کرے اور اللہ کی اطاعت نہ کرے.*

*اور ہمارے شیعوں کو پہچانا نہیں جا سکتا ہے سوائے ان خصوصیات کے ذریعے*


*1. تواضع اور فروتنی.*


*2. عبادت میں خضوع و خشوع*


*3. امانتداری*


*4. کثرت سے ذکر الھی میں مشغول رہنا*


*5. صوم و صلواة (نماز و روزہ) کی پابندی*


*6. والدین کے ساتھ نیکی*


*7. ھمسایےمیں موجود فقیروں ، مسکینوں ، مقروضوں اور یتیموں کا خیال رکھنا*


*8. گفتار میں سچائی*


*9. تلاوت قرآن کریم*

*10.زخم زبان سے پرہیز اور ہمارا شیعہ اپنے قبیلے میں امین محسوب ہوا کرتے ہیں.*

,..........................................................

تحف العقول 295

✨🍃🍂🌺🍃🍂🌺🍃🍂🌺
🍃🍂🌺🍃🍂🌺🍃 ﷽
🍃🍂🌺🍃
🌺

*ہمارے شیعوں کی خصوصیات*

امام محمد باقر علیه‌السلام :

و مَا كَانُوا يُعْرَفُونَ يَا جَابِرُ إِلَّا بِالتَّوَاضُعِ وَ التَّخَشُّعِ وَ الْأَمَانَةِ وَ كَثْرَةِ ذِكْرِ اللَّهِ وَ الصَّوْمِ وَ الصَّلَاةِ وَ الْبِرِّ بِالْوَالِدَيْنِ وَ التَّعَاهُدِ لِلْجِيرَانِ مِنَ الْفُقَرَاءِ وَ أَهْلِ الْمَسْكَنَةِ وَ الْغَارِمِينَ وَ الْأَيْتَامِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَ كَفِّ الْأَلْسُنِ عَنِ النَّاسِ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ وَ كَانُوا أُمَنَاءَ عَشَائِرِهِمْ فِی الْأَشْيَاءِ۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرما تے ہیں: اے جابر ؛ ہمارے شیعہ پہچانے نہیں جاتے مگر یہ کہ
1️⃣ تواضع اور خشوع
2️⃣امانت داری
3️⃣کثرت کے ساتھ ذکر خدا
4️⃣روزہ رکھنا
5️⃣نماز کو قائم کرنے
6️⃣والدین سے نیکی
7️⃣ھمسایہ میں موجود فقیر کی خبر گیری
8️⃣ نیازمندان اور مساکین کی خبر گیری
9️⃣صداقت،(سچائی )
🔟قرآن کی تلاوت
1️⃣1️⃣زبان پر کنٹرول ،لوگوں کی اچھائی کے علاوہ کچھ نہ کہنا۔
2️⃣1️⃣ہمارے شیعہ ہمیشہ اپنی اقوام کے درمیان امین تھے ۔

📚 بحارالانوار، ج ۹۷، ص ۱۹۴، ح ۱۱
ــــــــــــــــــــــــــــــــ

تین_اہم_خصوصیات

*🌷🌷حضرت امام صادق علیہ السلام*

🔴 امْتَحِنُوا شِيعَتَنَا عِنْدَ ثَلَاثٍ عِنْدَ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ كَيْفَ مُحَافَظَتُهُمْ عَلَيْهَا وَ عِنْدَ أَسْرَارِهِمْ كَيْفَ حِفْظُهُمْ لَهَا عِنْدَ عَدُوِّنَا وَ إِلَى أَمْوَالِهِمْ كَيْفَ مُوَاسَاتُهُمْ لِإِخْوَانِهِمْ فِيهَا

🔵 ہمارے شیعوں کو تین چیزوں سے آزماؤ؛

1️⃣ نماز: اوقات نماز پر کہ وہ کسقدر اوقات نماز کا خیال رکھتے ہیں،

2️⃣ رازداری: راز کی باتوں میں کہ وہ ہمارے دشمن کے سامنے کتنی اس کی حفاظت کرتے ہیں،

3️⃣ تعاون: اور انکی ثروت و دولت میں کہ وہ اس سے اپنے دینی بھائیوں کی کتنی مدد کرتے ہیں۔

📚 الخصال، ج‏1، ص103، امتحان الشيعة عند ثلاث .....

📚 اسلامی کہانی

✨ شيعہ كى چند خصوصيات

https://chat.whatsapp.com/GlJOPzHpUpi3NpNZzYKLB6

♻️ ابو اسماعيل كہتے ہيں كہ ميں امام باقر عليہ السلام كى خدمت ميں حاضر تھا عرض كى كہ جہاں ميں رہتا ہوں وہاں آپ كے ماننے والے بہت ہيں، امام ع نے فرمايا كہ كيا ان ميں سے امير لوگ غريبوں كى مدد كرتے ہيں؟ اور كيا ان كے ساتھ اخلاق مہربانانہ ہے؟ اور كيا ان كا خيال ركھتے ہيں؟ اور كيا ان شيعوں ميں سے جو نيكوكار لوگ ہيں وہ گنہگاروں كے ساتھ حسن اخلاق كے ساتھ پيش آتے ہيں؟ اور كيا آپس ميں برادرانہ تعلق ہے يا نہيں؟ ابو اسماعيل كہتا ہے كہ ميں نے كہا كہ نہيں ايسا كچھ نہيں ہے۔ تو امام ع نے فرمايا كہ ’’ يہ شيعہ نہيں ہيں شيعہ تو وہ ہيں جو ان صفات كے حامل ہوں ‘‘۔

📗 حوالہ :
(داستان ہاى اصول كافى،محمد محمدى اشتہاردى، ص:۴۶۷)
#post248
➖➖➖➖➖➖➖➖

🪀https://chat.whatsapp.com/D5xK3Hqk6HoF2gn4z3OYrJ
📱https://t.me/Quranaccademy

┈••❃ المصطفی قرآن اکیڈمی ┈••❃

*موضوع حدیث: شیعہ اور دوسروں کی مدد کرنا*

عَن محمد بن علی الباقِر عليهما السلام

اِنَّ بَعْضَ اَصَحْابِهِ سَأَلَهُ فَقالَ: جُعِلتُ فَدِاكَ اِنَّ الشّيعَهَ عِنْدَنا كثيروُنَ، فَقالَ: هَلْ يَعْطِفُ الغَنِىُّ عَلى الفَقيرَ، وَ يَتَجاوَزُ المُحْسِنُ عَنْ المُسىء وَ يَتَواسُونَ؟ قُلْتُ: لا، قالَ عليه السلام : لَيْسَ هؤُلاءِ الشّيعَةَ، الشَّيعَةُ مَنْ يَفْعَلُ هذا.

امام محمد باقر علیہ السلام کے کسی صحابی نے آپ ع سے عرض کیا: (آپ پر قربان ہو جاؤں) ہمارے علاقے میں شیعہ زیادہ ہیں.

امام ع نے فرمایا : کیا وہاں کے امیر لوگ فقیروں پر مہربان ہیں ؟

◀️ نیک لوگ بدکاروں کو معاف کرتے ہیں ؟

◀️ کیا مالی معاملات میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ؟

عرض کیا: نہیں

فرمایا : تو وہ شیعہ نہیں ہیں بلکہ شیعہ تو ایسے کام انجام دیتے ہیں

📚بحارالأنوار، ج 74، ص 316.

[ دوشنبه یکم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 18:59 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
.: Weblog Themes By themzha :.

درباره وبلاگ

ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر
امکانات وب