Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ 
پيوندهای روزانه

ما تا حال ندیدهایم که پیامبر اکرم (ص) در جنگهاکسی را کشته باشد و آن حضرت در سخت ترین لحظات جنگ پناهگاه اصحاب خویش بوده است چنانکه از امیرالمومنین علی (ع) نقل شده که می فرماید: «وقتی که جنگ و نبرد شدت میگرفت و نبرد تن به تن آغاز می شد به رسول خدا(ص) پناه می بردیم و او را سپر خویش قرار می‌دادیم و در این هنگام هیچ کدام از ما از او نزدیک تر به دشمن نبود.») بیهقی، ابوبکر احمد بن حسین، دلائل النبوه، تحقیق عبدالمعطی قلعجی، بیروت، دارالکتب العلمیه، ۱۴۰۵ق، چاپ اول، ج۳ ص۶۹-۷۰ ؛ تاریخ طبری، ج۲ ص۴۲۶)و نیز عمران بن حصین گوید: «پیامبر(ص) در برابر لشکری قرار نگرفت، مگر اینکه او اول کسی بود که ضربه می زد.»( صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الهدی و الرشاد، بیروت، دارالکتب العلمیه، ۱۴۱۴ق، چاپ اول، ج۷ ص۴۷)

در ادامه به سه نمونه از شجاعتهای حضرت اشاره می کنیم:

۱. نمونه ای از شجاعت و دلیری رسول خدا(ص) که منجر به اسلام آوردن عده ای از مشرکان گردید، در نبرد غطفان بود. در طول مسیر ،حضرت به محلی به نام «ذی امر» رسید. باران شدیدی گرفت. پیامبر(ص) که برای قضای حاجت رفته بود گرفتار باران شده و خیس شد. حضرت که نهر «ذی امر» را میان خود و اصحابش فاصله قرار داده بود، جامه های خود را در آورده و فشرد و برای این که خشک شود بر درختی افکند و خود زیر آن دراز کشید. اعراب مشرک که متوجه همه کارهای پیامبر(ص) بودند، به دعثور که سرور و سالارشان بود گفتند: « اکنون به محمد دسترسی داری. چون او از یاران خویش جدا مانده است پس اگر از آنها کمک بخواهد، کسی نیست تا او را نجات دهد. برو و او را بکش. او در حالی که شمشیرش را کشیده بود حرکت کرد و بالای سر حضرت رسید و گفت: ای محمد! اکنون چه کسی تو را از من حفظ می کند؟ فرمود: خدا. در این لحظه جبرئیل چنان به سینه دعثور کوفت که شمشیر از دستش رها شد، پیامبر(ص) شمشیر را برداشت و بر سر او ایستاد و فرمود: حالا چه کسی تو را از من حفظ می کند؟ گفت: هیچ کس، و اشهد ان لااله الا الله و ان محمدا رسول الله و سوگند به خدا از این پس هیچ جمعی را بر ضد تو گرد نمی آورم. پیامبر(ص) شمشیر را پس دادند. دعثور نزد قوم خود برگشت. به او گفتند: چه میگفتی شمشیر در دست تو و او در اختیارت است؟ گفت: به خدا تصمیم من همان بود که گفتم ولی مردی سفید چهره و بلند قامت در نظرم آمد که چنان به سینه ام کوفت که به پشت در افتادم و دانستم که او فرشته است. پس شروع به دعوت قوم خود به اسلام نمود و آیه ی ۱۴ سوره ی مائده درباره او نازل شد.) واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسة الاعلمی، ۱۴۰۹ق، چاپ سوم، ج۱، ص۱۹۶ و بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۷ق، چاپ اول، ج۱ ص۳۱۱)

۲.همچنین در غزوه حنین هنگامی که ترس و اضطراب در دل مسلمانان افتاده بود، و عده ی بسیاری از آنها فرار کرده و بسیاری کشته و زخمی شده بودند، پیامبر(ص)(ص) در جای خود محکم ایستاده و از چپ و راست با شمشیرش با دشمن مبارزه نموده و با صدای بلند می فرمود: انا النبی لا کذب، أنا ابن عبد المطلب، یعنی: من پیامبر(ص) هستم و دروغی در کار نیست و من پسر عبدالمطلب هستم. (تاریخ طبری، ج۳ ص۷۶ ؛ بیهقی، ابوبکر احمد بن حسین، پیشین، ج۱ ص۱۷۷ و واقدی، محمد بن عمر، پیشین، ج۳ ص۹۰۲(مسلمانان بانگ وی را شنیده و شجاعت خود را بازیافته و بار دیگر پیرامون پیامبر(ص) گرد آمده و مبارزه کردند، تا اینکه به پیروزی دست پیدا کردند. بدینسان همه پیامبر(ص) را شجاعترین مردمان میدانستند و صحابه از ایشان درس شجاعت و شهامت می آموختند.

۳. همچنین نقل شده است: ابی بن خلف که از سران شرک و کفر بود؛ روزی به پیامبر(ص) گفت: من اسبی دارم که هر روز به او علف میدهم تا چاق و چالاک شوم و سرانجام سوار بر آن شده و تو را میکشم. پیامبر(ص) در پاسخ او فرمود: «بلکه به خواست خدا من تو را میکشم.»

هنگامی که جنگ احد رخ داد ابی بن خلف میگفت: محمد کجاست؟ سرانجام آن حضرت را شناخت و به سوی او حمله کرد. گروهی از مسلمین جلوی او را گرفتد؛ اما پیامبر(ص) به آنان فرمود: «بگذارید جلو بیاید.» پیامبر(ص) نیزه حارث بن صمه را گرفت و به سوی ابی بن خلف حمله کرد و نیزه را بر گردن او فرود آورد؛ خراشی بر گردن او پدید آمد و نعره کشید و میگفت: محمد مرا کشت. یارانش او را دلداری میدادند و میگفتند: چرا بیتابی میکنی؛ این خراشی بیش نیست. گفت: آری، اگر این زخم از دودمان ربیعه و مضر وارد میشد؛ حق با شما بود.( طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم والملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۷ق، ج۲ ص۵۱۸-۵۲۰ ؛ مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق، ج۲ ص۳۲-۳۵.)

[ جمعه دوازدهم خرداد ۱۴۰۲ ] [ 1:57 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

*📛ثالثی ٹولہ کے سرغنہ مولوی اظہرالدین حیدری کا ممبر حسین علیہ السلام پر قرآن پاک سر پر رکھ کر خدا و رسول و آئمہ ص پر افترا و جھوٹ و بہتان و الزام📛*

*👆🎞ویڈیو+تحریر دونوں ملاحظہ کیجئے👇*

*_✍️تحریر:_قمر_عباس_قمر_*

*🌼بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ*
*🌼اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍوآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ*

*📖قرآن پاک میں کذب بیانی و افترا بازی و الزام تراشی و بہتان بازی کی مذمت🚫*

*📖القرآن الکریم*
وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلۡسِنَتُکُمُ الۡکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۱۶﴾
*ترجمہ:* اور جن چیزوں پر تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگاتی ہیں ان کے بارے میں نہ کہو یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تم اللہ پر جھوٹ افترا کرو، جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ یقینا فلاح نہیں پاتے ۔

*📖القرآن الحکیم*
ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ، غَرَّہُمۡ فِیۡ دِیۡنِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۲۴﴾
*ترجمہ:* ان کا یہ رویہ اس لیے ہے کہ انہوں نے افترا بازی کر کے انہیں اپنے دین کے بارے میں دھوکے میں رکھا ہے۔

*📖القرآن الحکیم*
تَاللّٰہِ لَتُسۡـَٔلُنَّ عَمَّا کُنۡتُمۡ تَفۡتَرُوۡنَ﴿۵۶﴾
*ترجمہ؛* اللہ کی قسم اس افترا کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔

*❗️کیا محمد وآل محمد ص پر جھوٹ و افتری باندھنے سے وضوء و روزہ باطل ہو جاتا ہے تو ان کی مجالس و نمازیں درست ہونگی❓️*
۔۔۔یقینآ نہیں۔۔۔

*_✍️وبإسناده عن الحسين بن سعيد ، عن ابن أبي عمير ، عن منصور بن يونس ، عن أبي بصير قال : سمعت أبا عبدالله عليه‌السلام يقول : الكذبة تنقض الوضوء وتفطر الصائم ، قال : قلت : هلكنا! قال : ليس حيث تذهب ، إنما ذلك الكذب على الله وعلى رسوله وعلى الائمة عليهم‌السلام_*
*ترجمہ:*
*جناب ابوبصیر رح سے روایت ھے امام جعفر صادق علیہ السلام فرما رہے تھے اللہ ج و رسول ص و آئمہ علیہ السلام پر جھوٹ و افتری باندھنے سے وضو ٹوٹ جاتا ھے اور روزہ باطل ہو جاتا ہے۔*
📔التهذيب ٤ : ٢٠٣ | ٥٨٥
📓الكافي ٢ : ٢٥٤ | ٩ ، ٤ : ٨٩ | ١٠
📘وسائل الشیعہ ج10 ص33

*♻️مولا علی علیہ السلام کی پیشنگوئی کہ ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں رسول اللہ (صل اللہ علیہ وآلہ) پر افترا بازی بہت زیادہ ہوگی♻️*

*_قال امیرالمومنین علیہ السلام: سَيَأْتِي عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي زَمَانٌ لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ أَخْفَى مِنَ الْحَقِّ، وَلاَ أَظْهَرَ مِنَ الْبَاطِلِ، وَلاَ أَكْثَرَ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى اللهِ وَرَسُولِهِ._*
ترجمہ:
*میرے بعد تم پر ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی شے حق سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ عیاں نہ ہوگی اور خدا و رسول پر افترا بازی سے بڑھ کر کچھ نہ ہوگا۔*
📗نهج البلاغة خطبة147

*نام نہاد علماء(الامہ اظہرالدین فراری)کے متعلق پیشنگوئی*

*_امير المؤمنين علیؑ فرماتے ہيں قَدْ تَسَمَّى عَالِماً وَ لَيْسَ بِهِ فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِنْ جُهَّالٍ وَ أَضَالِيلَ مِنْ ضُلَّالٍ وَ نَصَبَ لِلنَّاسِ أَشْرَاكاً مِنْ حَبَائِلِ غُرُورٍ وَ قَوْلِ زُورٍ قَدْ حَمَلَ الْكِتَابَ عَلَى آرَائِهِ وَ عَطَفَ الْحَقَّ عَلَى أَهْوَائِهِ يُؤْمِنُ النَّاسَ مِنَ الْعَظَائِمِ وَ يُهَوِّنُ كَبِيرَ الْجَرَائِمِ يَقُولُ أَقِفُ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ وَ فِيهَا وَقَعَ_*
*ترجمہ*
*جس نے(زبردستى ) اپنا نام عالم ركھ ليا ہے حالانكہ وہ عالم نہيں ہے ۔اس نے جاہلوں اور گمراہوں سے جہالتوں اور گمراہيوں كو بٹور ليا ہے اور لوگوں كے لئے مكر و فريب كے پھندے اور غلط سلط باتوں كے جال بچھا ركھے ہيں۔قرآن كو اپنى راۓ پر او رحق كو اپنى خواہشوں پرڈھالتا ہے ۔بڑے سے بڑے جرموں كا خوف لوگوں كے دلوں سے نكال ديتا ہے اور كبيرہ گناہوں كى اہميت كو كم كرتا ہے كہتا تو يہ ہے كہ ميں شبہات ميں توقف كرتا حالانكہ انہيں ميں پڑا ہوا ہے۔*
📗 (نهج البلاغه ، خطبه نمبر ۸۵ ، ص:۲۲۱)

*♻️سب سے پہلے ہم وہ روایت نقل کرتے ہیں جس کو بنیاد بنا کر اظہرالدین فراری، رسول اللہ ص پر جھوٹ و بہتان و افترا بازی کر رہا ہے۔♻️*

*_✍️سُئِلَ اَلْبَاقِرُ (عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ) عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: فَسْئَلِ اَلَّذِينَ يَقْرَؤُنَ اَلْكِتٰابَ مِنْ قَبْلِكَ. فَقَالَ: «قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ (ص): لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى اَلسَّمَاءِ اَلرَّابِعَةِ أَذَّنَ جَبْرَئِيلُ وَ أَقَامَ، وَ جَمَعَ اَلنَّبِيِّينَ وَ اَلصِّدِّيقِينَ وَ اَلشُّهَدَاءَ وَ اَلْمَلاَئِكَةَ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ وَ صَلَّيْتُ بِهِمْ، فَلَمَّا اِنْصَرَفْتُ قَالَ لِي جَبْرَئِيلُ: قُلْ لَهُمْ بِمَ تَشْهَدُونَ؟ قَالُوا: نَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ، وَ أَنَّكَ رَسُولُ اَللَّهِ، وَ أَنَّ عَلِيّاً أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ»._*
*ترجمہ: *
امام باقر علیہ السلام سے قرآن کی آیت فسئل الذین یقرون الکتاب کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ع نے فرمایا کہ رسول اللہ ص نے فرمایا تھا۔ معراج کی رات جب چوتھے آسمان پر پہنچے تو جبرائیل نے اذان و اقامت کہی اور تمام نبیوں، صدیقوں، شہداء، ملائکہ کو اکٹھا کیا گیا اور رسول ص نے خود آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز مکمل ہونے کے بعد جبرائیل نے نبین صدیقین ملائکہ شہداء سے سوال کیا آپ کس چیز کی گواہی دیتے ہیں؟ تو انہوں نے نے عرض کیا ہم گواہی دیتے ہیں کہ۔ *لا اله الا اللہ و انک محمد رسول اللہ وانا علیآ امیرالمومنین۔*

*مومنین کرام یہاں معترضین ڈنڈی مارتے ہوئے لفظ تشھدون کا معنی تشھد پڑھتے ہو کرتے ہیں۔ جبکہ عربی کا ادنی سا طالب علم بھی جانتا ھے کہ لفظ تشھدون باب مجرد ہے اس کے معنی گواہی دیتے ہو بنیں گے۔ لیکن اگر لفظ تتشھدون باب تفعل مزید فیہ ہوتا تو جس کے معنی تشھد پڑھتے ہو بنے گا۔ جبکہ معترضین قیاس کرتے ہوئے تشھدون کا معنی غلط کرتے ہیں اور محمد و آل محمد ص پر افترا بازی کرتے ہیں۔*

*دیگر بہت سی آیات و احادیث و تفاسیر میں تشھدون باب مجرد آیا ہے کہ تم کس بات کی گواہی دیتے ہو۔ یعنی عمومی گواہی کی بات ہو رہی ہوتی ہے۔*

*1️⃣📖سورہ آل عمران*
*_{یاھل الکتب لم تکفرون بایت اللہ وانتم تشھدون}_*
*اے اہل کتاب! تم آیات خداوندی کا انکار کیوں کر رہے ہو حالانکہ تم خود اسکی گواہی دیتے ہو۔*

*2️⃣📖سورہ بقرہ*
*_{و اذ اخذنا میثاقکم لا تسفکون دما ءکم ولا تخرجون انفسکم من دیارکم ثم اقررتم وانتم تشھدون}_*
*اور یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ اپنے لوگوں کو شہر بدر کرنا تو تم نے اس کا اقرار کرلیا تھا اور تم اس بات کی گواہی بھی دیتے ہو۔*

*3️⃣📖سورہ انعام*
*_{ائنکم لتشھدون ان مع اللہ الھۃ اخریؔؔ}_*
*کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟*

✍️ *مندرجہ بالا تمام آیات میں لفظ تشھدون ایا ہے اور تمام مفسرین نے اس کا ترجمہ عمومی گواہی کیا ہے نہ کہ تشھد نماز پڑھنا لیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ معترضین ترجمہ کرنے میں خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔*

🔛 *آیات مبارکہ کے بعد ہم آپ کے سامنے کچھ روایات معصومین علیہ السلام پیش کرتے ہیں جہاں لفظ تشھدون آیا ہے اور اس کا معنی بھی عمومی گواہی مراد لیا جا رہا ہے نہ کہ تشھد نماز پڑھنا مراد لیا جا رہا ہے۔ وقت کی قلت کی وجہ سے ہم مختصرآ بیان کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کریں گے۔*

*_1️⃣📔پہلا حوالہ کتاب اصول کافی باب ایمان والکفر جلد4 صفحہ262 کا ہے۔*
*_واذا اخذنا میثاقکم لا تسفکون دماء کم ولا تخرجون انفسکم من دیارکم ثم و انتم تشھدون۔۔۔۔۔۔!_*
مترجم لکھتا ہے کہ *جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ تم اپنا خون نہ بہائو اور اپنے لوگوں کو اپنے شہروں سے نہ نکالو تو تم نے اقرار کر لیا اوراس پر تم خود گواہ ہو،۔۔۔۔!*

*2️⃣📕دوسرا حوالہ کتاب اصول کافی جلد5 صفحہ314 باب کتاب العشرہ کا ہے۔*
*_قال؛ قلت لابی عبداللہؑ: تودون الامانۃ الیہم ، و تقیمون الشھادۃ لہم وعلیہم ،وتعودون مرضاہم وتشھدون جنائزہم۔_*
مترجم لکھتا ہے کہ *راوی کے سوال پر امام جعفرصادقؑ نے فرمایا: لوگوں کی امانتیں ادا کرو، ان کی سچی گواہیاں دو، خواہ موافق ہوں یا مخالف، ان کے مریضوں کی عیادت کرو اور ان کے جنازوں میں حاضر ہو۔*

❗️ *نوٹ:* اگر تشھدون معنی تشھد پڑھنا معنی ہوگا تویہاں تشھدون جنائزھم نماز جنازہ میں کونسے تشھد کی بات ہو رہی ہے؟ کیونکہ نماز جنازہ ایک دعا ہے اور اس میں رکوع،سجود و تشھد نہیں ہوتے ہیں،۔

*3️⃣📗تیسرا حوالہ کتاب عیون الاخبار الرضا ع جلد2 صفحہ96 پر نقل ہوا ہے*
*_ثم قال: تشھدون کلکم ان ھذا موسی ابن جعفر بن محمد ع قال: قلنا: نعم اشھد انہ موسی ابن جعفر بن محمد ع۔۔۔۔!_*
مترجم کا کیا گیا ترجمہ: *سب نے لاشہ دیکھ لیا تو سندی نے کہا۔ تم سب گواہی دیتے ہو کہ یہ موسی ابن جعفر ع کا لاشہ ہے؟ ہم نے کہا۔ جی ہاں۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں۔*

*4️⃣📘چوتھا حوالہ کتاب کمال الدین وتمام النعمہ جلد اول صفحہ57* جس میں اوپر والی روایت بیان ہوئی ہے اور مترجم نے من و ان ویسے ہی ترجمہ فرمایا ہے۔
*_ثم قال: تشھدون کلکم ان ھذا موسی ابن جعفر بن محمد ع قال: قلنا: نعم اشھد انہ موسی ابن جعفر بن محمد ع۔۔۔۔۔!_*
مترجم کا کیا گیا ترجمہ *سب نے لاشہ دیکھ لیا تو سندی نے کہا۔ تم سب گواہی دیتے ہو کہ یہ موسی ابن جعفر ع کا لاشہ ہے؟ ہم نے کہا۔ جی ہاں۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں۔*

*5️⃣📙پانچواں حوالہ کتاب الخصال شیخ صدوق رح صفحہ56 کا ہے جہاں روایت نقل ہوئی ہے*
*_لی بذلک، وتشھدون لی بہ؟ فقالو: نشھد لک بذلک من کنت مولا فان علیا مولاہ۔_*
مترجم لکھتا ہے کہ *اور کیا تم میرے لیے اس بات کی گواہی دیتے ہو؟ پھر فرمایا کہ میں جس کا مولا ہوں علی ع اس کے مولا ہیں۔*

*6️⃣📓چھٹا حوالہ کتاب وسائل الشیعہ جلد10 صفحہ250 کا ہے جہاں روایت نقل ہوئی ہے*
*_فضحک امیرالمومنین علی علیہ السلام ثم قال: تشھدون ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ؟ قالوا: نشھد ان لا الہ الا اللہ۔ ولا نعرف محمدا،۔۔۔۔۔!_*
مترجم لکھتا ہے کہ *امیرالمومنین علیؑ ہنسے اور فرمایا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ خدا واحد لا شریک ہے اور ٓحضرت رسول خدا ص اس کے رسول ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم توحید کی گواہی دیتے ہیں مگر محمد ص کو نہیں جانتے۔۔۔۔۔!*

*7️⃣📒ساتواں حوالہ کتاب نہج البلاغہ خطبہ نمبر 191 کلام امیرالمومنین علی ع*
*_فان فعل اللہ لکم ذلک، آتومنون و تشھدون بالحق؟ قالوا نعم۔_*
مترجم علامہ مفتی جعفر حسین رح لکھتے ہیں کہ *اگر اس نے تمہارے لیے ایسا کر دکھایا تو کیا تم ایمان لے آئو گے اور حق کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں!*

*8️⃣📔آٹھواں حوالہ کتاب تفسیر عیاشی سورہ اسراء آیت 26*

*_عن جمیل بن دراج عن ابی عبداللہ ع قالت اتت فاطمۃ ابا بکر ترید فدک، قال؛ ھاتی اسود او احمر یشھد بذلک، قال: فاتت بام ایمن فقال لھا: بم تشھدین قالت: فات ذا القربی حقہ فلم یدر محمدص من ہم فقال: یا جبرئیل سل ربک من ہم۔_*
مفھوم:
*فدک کیلئے جناب سیدہ س نے ابوبکر کے پاس اسود و احمر کو لایا کہ گواہی دے سکیں پھر جناب ام ایمن تشریف لائیں انہوں نے کہا کہ اے ام ایمن آپ کس چیز کی گواہی دیتی ہو؟ کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں جناب جبرائیل حضرت محمد ص کے پاس آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ*

🔰یعنی یہاں لفظ بھی تشھدین منقول ہوا ہے تو کیا اسے بھی تشھد نماز پر فٹ کر کے ایسی گواہی دینگے⁉️

🔰 *رسول اللہ ص کی تکبیر سے تشھد و سلام تک مکمل نماز معرقج ملاحظہ کیجئے*

*آخری بات* کہ اگر آپکو واقعی حقیقتآ معراج والی پرسول االلہ ص کی نماز چاھیئے تو یہ بھی آپکو واضح و روشن و صاف الفاظ و جملوں کے ساتھ ہدیہ فرما دیتے ہیں تاکہ آپ کی سوجھ بوجھ میں مزید اضافہ ہو اور دشمنوں کی سازش کا حصہ بننے سے بچ سکیں اگر غیر جانبدارانہ طور پر تحقیق کے عادی ہیں تو روایت ملاحظہ فرمائیں۔
جس میں تقریبآ مکمل طریقہ تکبیر سے لے کر تشھد تک ذکر کیا گیا ہے جس میں شھادت ثالثہ کا نام و نشان تک نہیں ملتا ہے بلکہ وہی نماز ہے جو ہماری کتب اربعہ معتبرہ میں موجود ہے اور چودہ صدیوں سے تسلسل کے ساتھ آ رہی ہے۔

ہم آپکے سامنے سورہ اسراء کی آیت معراج نمبر 1 'سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی،
کی تفسیر میں وہ طویل و مفصل روایت ہدیہ کرر ہے ہیں جس میں حضور پاک ص نے اللہ کے حضور عرش پر شب معراج نماز پڑھی تھی اور معترضین کا مدعا و قیاس غائب نظر آتا ہے۔

✍️وباسناده إلى إسحاق بن عمار قال: سألت أبا الحسن موسى بن جعفر عليه السلام: كيف صارت الصلاة ركعة وسجدتين؟ وكيف إذا صارت سجدتين لم تكن ركعتين؟
فقال: إذا سألت عن شئ ففرغ قلبك لتفهم، ان أول صلاة صلاها رسول الله صلى الله عليه وآله انما صلاها في السماء بين يدي الله تبارك وتعالى قدام عرشه جل جلاله، وذلك أنه لما اسرى به وصار عند عرشه تبارك وتعالى، قال: يا محمد ادن من صاد، فاغسل مساجدك وطهرها وصل لربك،فدنا رسول الله صلى الله عليه وآله إلى حيث أمره الله تبارك وتعالى فتوضأ وأسبغ وضوئه،ثم استقبل الجبار تبارك وتعالى قائما فأمره بافتتاح الصلاة، ففعل فقال: يا محمد اقرأ: " بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين إلى آخرها " ففعل ذلك ثم أمره ان يقرأ نسبة ربه تبارك وتعالى: " بسم الله الرحمن الرحيم قل هو الله أحد الله الصمد لم يلد ولم يولد "ثم أمسك فيه القول فقال رسول الله صلى الله عليه وآله:
" قل هو الله أحد الله الصمد " فقال:
قل " لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد " فامسك عنه القول، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله:
كذلك الله ربى كذلك الله ربى، كذلك الله ربى، فلما قال ذلك قال: اركع يا محمد لربك، فركع رسول الله صلى الله عليه وآله فقال وهو راكع: سبحان ربى العظيم وبحمده، ففعل ذلك ثلثا، ثم قال: ارفع رأسك يا محمد ففعل رسول الله، فقام منتصبا بين يدي الله عز وجل، فقال: اسجد يا محمد لربك، فخر رسول الله صلى الله عليه وآله ساجدا فقال: قل: سبحان ربي الأعلى وبحمده، ففعل ذلك رسول الله ثلثا، فقال له: استو جالسا يا محمد ففعل، فلما استوى جالسا ذكر جلال ربه جل جلاله فخر رسول الله ساجدا من تلقاء نفسه لا لأمر امره ربه عز وجل فسبح أيضا ثلثا، فقال: انتصب قائما ففعل فلم ير ما كان رأى من عظمة ربه جل جلاله فقال له: اقرأ يا محمد وافعل كما فعلت في الركعة الأولى، ففعل ذلك رسول الله صلى الله عليه وآله
ثم سجد سجدة واحدة فلما رفع رأسه ذكر جلالة ربه تبارك وتعالى الثانية، فخر رسول الله صلى الله عليه وآله ساجدا من تلقاء نفسه لا لأمر ربه عز وجل، فسبح أيضا ثم قال له: ارفع رأسك ثبتك الله،
*👈"واشهد ان لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وان الساعة آتية لا ريب فيها، وان الله يبعث من في القبور، اللهم صلى على محمد وآل محمد، وترحم على محمد و آل محمد، كما صليت وباركت وترحمت على إبراهيم وآل إبراهيم انك حميد مجيد، اللهم تقبل شفاعته وارفع درجته" ففعل،، فقال: سلم يا محمد ص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!*👉
📙علل الشرائع (الشيخ الصدوق) ، جلد : 2 ، صفحه : 334
📓روضة المتقين في شرح من لا يحضره الفقيه( ط- القديمة) (المجلسي‌، محمد تقى) ، جلد : 2 ، صفحه : 341
📒وسائل الشيعة ط-آل البیت (الشيخ حرّ العاملي) ، جلد : 5 ، صفحه : 469
📔البرهان في تفسير القرآن (البحراني، السيد هاشم) ، جلد : 3 ، صفحه : 490
📙مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول (العلامة المجلسي) ، جلد : 15 ، صفحه : 478
📕بحار الأنوار - ط مؤسسةالوفاء (العلامة المجلسي) ، جلد : 18 ، صفحه : 368
📘جامع أحاديث الشيعة (البروجردي، السيد حسين) ، جلد : 5 ، صفحه : 22
📗تفسیر نورالثقلین جلد5 صفحہ163
📕تفسیر الميزان (العلامة الطباطبائي) جلد13 صفحه26
📓شناخت نامه نماز (محمدی ری‌شهری، محمد) ج1 ص48
📒بحوث في المعراج الصدر، السيد علي جلد1صفحه83

📢 *نتیجہ/خلاصہ:*

*_اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ۔_*
*ترجمہ:*
*یہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خسارے میں ڈال چکے ہیں اور وہ جو کچھ افترا کرتے تھے وہ کسطرح بے حقیقت ثابت ہوا⁉️*

♻️ *مومنین کرام ہم نے آپ کے سامنے مختصرآ چند آیات و روایات پیش کی ہیں اور مترجمین کے ترجمے و متن کو پڑھنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ لفظ تشھدون باب مجرد ہے جس کا معنی بنے گا کہ تم گواہی دیتے ہو جیساکہ تمام دلیلوں و قرائن سے ثابت شدہ ہے۔ اگر لفظ تتشھدون باب تفعل مزید فیہ ہوتا تو تب اس کا معنی بنتا کہ تم تشھد پڑھتے ہو جبکہ ایسا لفظ یہاں استعمال نہیں ہوا ہے ایسا ترجمہ کرنا خیانت کاری و بہتان و الزام و افترا بازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مذید ہم نے مکمل نماز معراج رسول اللہ ص بھی بیان کر چکے ہیں جس میں تکبیر سے تشھد و سلام تک ذکر موجود ھے لیکن معترضین کا خودساختہ اضافہ نہیں ھے۔*

[ شنبه سی ام اردیبهشت ۱۴۰۲ ] [ 21:36 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

چه کسانی با ابوبکر بیعت نکردند؟

به جز امیرالمومنین علی علیه السلام که با ابوبکر بیعت نکرد، هیچ‌کدام از بنی‌هاشم هم تا بعد از وفات صدیقه طاهره سلام الله علیها با ابوبکر بیعت نکردند. ابن اثیر در این مورد می‌نویسد: «علی و بنی‌هاشم و زبیر شش ماه ماندند و با ابوبکر بیعت نکردند تا فاطمه رضی الله عنه وفات یافت، آن‌گاه بیعت کردند»(. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ ،ترجمه ابوالقاسم حالت، تهران، موسسه مطبوعاتی علمی، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۲۱٫)
البته این عقیده اهل سنت است که امیرالمومنین بعد از شش ماه بیعت کرده است اما نظر شیعه این است که امیرالمومنین علی علیه‌السلام هیچ‌گاه بیعت نکرد چنان که شیخ مفید می‌نویسد: « اتفاق نظر همه- دانشمندان – و همه محققان شیعه و عقیده حق این است که امیر المومنین علی علیه السلام هرگز با ابوبکر بیعت نکرد».( شیخ مفید، الفصول المختاره، تحقیق سید علی میر شریف، بیروت،‌ دار المفید، چ دوم، ۱۴۱۴ق، ص۴۰ و ۵۶ به بعد)
به جز امیرالمومنین(ع) و بنی هاشم، بسیاری از صحابه هم با ابوبکر بیعت نکردند که از جمله آنان می توان به افراد ذیل اشاره کرد:


۱- بلال؛ بلال نه تنها بیعت نکرد بلکه از اذان گفتن خودداری کرد و به سوی شام شتافت( طبقات ابن سعد، ج۳ ، ص ۲۳۶)


۲- سعد بن عباده( رئیس قبیله خزرج)؛ او هرگز با ابوبکر و عمر بیعت نکرد. او پس از مرگ ابوبکر به سوی شام شتافت و در آنجا ( دوران خلافت عمر) به طور مرموز ترور شد.( تاریخ طبری، ج۱، ص ۱۸۴۴)


۳- سلمان فارسی (شرح نهج البلاغه، ابن بی الحدید، ج۲، ص۴۹)


۴- فضل بن عباس و پدرش عباس(از معروفین بنی هاشم) ؛ او در سقیفه گفت: بزرگ ما علی علیه اسلام از شما سزاورتر است.( تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۱۲۴)


۵- منذر بن ارقم ؛ او در

سقیفه کفته بود: در بین هاشم مردی (علی علیه السلام) وجود دارد که اگر به خلافت روی آورد کسی تردیدی در حقانیت او ندارد( تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۱۲۴)


۶- عتبه بن ابی لهب (او در پی سخن ابن عباس در سقیفه گفت: هرگز فکر نمی کردم امر خلافت از بنی هاشم و از ابوالحسن علی علیه السلام منحرف گردد، کسی که اولین مومن به رسول الله بوده و سابقه او بر همگان ثابت و داناترین فرد نسبت به قرآن و سنت های پیامبر(ص) است( تاریخ یعقوبی،همان)


۷- ابوسفیان بن حرب (او حتی نزد علی علیه السلام آمده و پیشنهاد جمع آوری سلاح و حمله مسلحانه علیه ابوبکر را داد.( تاریخ طبری، ج۳، ص ۲۰۹)


۸- حذیفه بن الیمان(شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج۲، ص ۵۱)


۹- زبیر بن العوام (همان ،ج۲، ص ۲۱)


۱۰- فروه بن عمر الانصاری (زبیر بن بکار در کتاب الاخبار الموفقیات می نویسد: فروه بن عمر از اصحابی بود که زیر بار بیعت با ابوبکر نرفت)؛ الاخبار الموفقیات، ص ۵۹۰)


۱۱- خالد بن سعید ؛ وی از سوی رسول الله (ص)فرمانداری صنعای یمن را به عهده داشت، زمانی که رسول خدا(ص) از دنیا رفت، خالد همراه با دو برادرش، ابان و عمر ، محل خدمت خود را ترک کردند و به مدینه بازگشتند ابوبکر از ایشان پرسید: برای چه محل ماموریت را ترک کردید؟ هیچ کس برای فرمانداری شایسته تر از منتخبین رسول خدا (ص) نمی باشد، بر سر کارتان برگردید. آنان پاسخ دادند: ما پسران احیحه ،پس از رسول خدا(ص) برای هیچ کس دیگر کار نمی کنیم . او ضمن سخنانی به بنی هاشم گفته بود: شما اهل بیت درخت تناور و با میوه های نیکو هستید، ما پیرو شما هستیم. ( اسدالغابه ،ج۱ ، ص ۵۷۵)


۱۲-مقداد بن عمرو ۱۳- ابو ذر غفارى ۱۴- عمار بن یاسر ۱۵ براء بن عازب ۱۶ ابى بن کعب. (رک: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۱۲۴)


همچنین از افراد دیگری همچون مالک بن نویره ؛ ابوالتیهان ؛ عباده بن صامت ؛ سعد بن ابی وقاص؛ طلحه بن عبیدالله؛ خزیمه بن ثابت و… نیز نام برده شده است.

[ چهارشنبه سی ام فروردین ۱۴۰۲ ] [ 4:38 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

سید اور غیر سید کا نکاح


ادامه مطلب
[ یکشنبه بیست و هشتم آذر ۱۴۰۰ ] [ 12:4 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

شہادت ثالثہ

 


ادامه مطلب
[ دوشنبه بیست و چهارم آبان ۱۴۰۰ ] [ 1:56 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

بررسی روایت واجب بودن احترام سادات

أَنَا لَهُمْ شَفِيعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ لَوْ جَاءُوا بِذُنُوبِ أَهْلِ الدُّنْيَا الْمُكْرِمُ لِذُرِّيَّتِي وَ الْقَاضِي لَهُمْ حَوَائِجَهُمْ وَ السَّاعِي لَهُمْ عِنْدَ اضْطِرَارِهِمْ وَ الْمُحِبُّ لَهُمْ بِقَلْبِهِ وَ لِسَانِهِ‏
وَ قَالَ أَكْرِمُوا أَوْلَادِي وَ حَسِّنُوا آدَابِي‏ أَوْلَادِي الصَّالِحُونَ لِلَّهِ وَ الطَّالِحُونَ لِي‏؛

کساني که به ذريه من احترام کنند ، آنان را گرامي بدارند ، حوائج شان را برآورده سازند ، در گرفتاري ها براي رفع گرفتاري آنان بکوشند ، به قلب و زبان دوستدار آنان باشند. اگر آنان با گناه برابر با گناه اهل دنيا در محشر حاضر شوند، من شفيع شان خواهم بود
و فرمود: فرزندان مرا گرامي بداريد ، خوبان شان را براي خدا و بدان شان را به خاطر من .آداب مرا به نيکي حفظ کنيد.(1)
پي نوشت:
1. جامع الأخبار،140 تاج الدين شعيري، انتشارات رضي


ادامه مطلب
[ جمعه هفتم آبان ۱۴۰۰ ] [ 11:31 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

یزید کے کفر پر دلائل


ادامه مطلب
[ چهارشنبه نهم تیر ۱۴۰۰ ] [ 11:34 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

https://www.valiasr-aj.com/urdu/mobile_shownews.php?idnews=328
شیعوں کا امام حسین(ع) کو قتل کرنا۔

سوال:

وہابی و بعض اہل سنت اپنی کتابوں اور چینلز میں عرصہ قدیم سے کہہ رہے ہیں حتی یہ بات ان کی عوام میں بھی عام ہو گئی ہے کہ خود شیعوں نے امام حسین(ع) کو شھید کیا ہے اور پھر خود ہی ان پر گریہ و عزاداری کرتے ہیں۔

ان الشيعة هم الذين قتلوا الحسين، ذكر محسن الامين: «ثم بايع الحسين من أهل العراق عشرون ألفا غدروا به وخرجوا عليه وبيعته في أعناقهم وقتلوه».

شیعہ ہی وہ ہیں جہنوں نے حسین کو قتل کیا ہے۔ محسن امین نے ذکر کیا ہے کہ اہل عراق میں سے 20 ہزار بندوں نے امام حسین کی بیعت کی اور پھر امام کو دھوکہ دیا اور امام پر خروج کر کے امام حسین کو قتل کر دیا۔

احسان الهي ظهير ـ الشيعة وأهل البيت: 282، والنص في اعيان الشيعة: 34.

فهؤلاء هم الشيعة وهذه معاملاتهم وأحوالهم مع أهل البيت الذين يدعون انهم يحبونهم وموالون لهم.

یہ شیعوں کی حالت ہے اور ان کا سلوک ہے اہل بیت کے ساتھ حالانکہ یہ اہل بیت سے محبت کے دعوے کرتے ہیں۔

اس عبارت میں یہ وھابی کہنا چاہتا ہے کہ ایک طرف سے شیعہ اہل بیت سے محبت کا دعوی کرتے ہیں تو دوسری طرف سے اہل بیت کو قتل بھی کرتے ہیں جیسے کہ انھوں نے امام حسین کو قتل کیا ہے۔

احسان الهي ظهير ـ الشيعة واهل البيت : 280 ـ 282.

تاریخ و روایات کی روشنی میں کیا ان لوگوں کی شیعوں پر تہمت صحیح ہے یا نہیں ؟

سؤال کی وضاحت:

تمام تاریخ، روایات اور عبارات واضح ہیں کہ قاتل امام حسین(ع) کون ہے ؟ لیکن اس کے باوجود بعض منافق و وہابی لوگ فقط و فقط عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے دن رات کہتے رہتے ہیں کہ امام حسين (ع) سے كتاب ارشاد شيخ مفيد (رح) میں شیعوں سے خطاب ذکر ہوا ہے جس میں انھوں نے واقعی قاتلوں کو بیان کیا ہے کیا یہ سوال و اشکال صحیح ہے ؟

يزيد کے ساتھ مخالفت:

محمد الخضری کہتا ہے کہ:

الحسين أخطأ خطأ عظيماً في خروجه هذا الذي جر علي الأمة وبال الفرقة، وزعزع ألفتها إلي يومنا هذا۔

امام حسين(ع) نے قیام کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ اس سے امت اسلام میں سے تفرقہ ایجاد ہوا ہے جو آج تک باقی ہے۔

محاضرات في تاريخ الأمم الإسلامية، ج 2، ص 129.

محمد أبو اليسر عابدين، شام کا مفتی کہتا ہے کہ:

بيعة يزيد شرعية، ومن خرج عليه كان باغياً.

یزید کی بیعت شرعی تھی اور خلیفہ برحق تھا اور جو بھی اس کے خلاف قیام کرہے گا وہ باغی و سر کش ہو گا۔

اغاليط المؤرخين، ص 120.

مفتي اعظم عربستان عبدالعزيز آل الشيخ کہتا ہے کہ:

خلافة يزيد شرعية و خروج الحسين باطل.

یزید کی خلافت شرعی تھی اور خلیفہ برحق تھا اور حسین(ع) کا قیام باطل تھا۔

يزيد مجتهد و امام !!!

ابو الخير شافعي قزويني، يزيد کی اس طرح تعریف کرتا ہے:

«إماماً مجتهداً» یزید امام و مجتھد تھا۔

تراجم رجال القرنين السادس والسابع، ص 6.

بعض نے دعوی کیا ہے کہ یزید صحابہ، خلفاء راشدین یا انبیاء سے بھی بالا تر تھا۔

منهاج السنة، ابن تيمية، ج 4، ص 549 به بعد.

اس بارے میں غلط اور جعلی روایات بھی لاتے اور بتاتے ہیں کہ :رسول خدا (ص) نے ہر اس بندے کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو حاکم کے خلاف قیام کرے اور امت میں فتنہ و تفرقہ ایجاد کرے۔ نقل کرتے ہیں کہ:

«ان يزيد قتل الحسين بسيف جده» کہ حسین کو اس کے جد کی تلوار سے ہی قتل کیا گیا ہے۔

ابن العربی کتاب العواصم من القواصم۔

المناوي، محمد بن عبد اللَّه، فيض القدير شرح الجامع الصغير، تحقيق احمد عبد السلام، ج: 1 ص: 265، دارالكتب العلمية، چاپ اول 1415ق، بيروت.همچنين ر. ك. خلاصة عبقات الانوار، مير سيد حامد حسين النقوي، تلخيص الميلاني، ج: 4 ص 237 و 238، مؤسسة البعثة قم 1406.

یعنی رسول خدا نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا اور ہم نے بھی اس حکم پر عمل کیا ہے۔ یہ بنی امیہ سے وفا داری اور اہل بیت سے بغض و دشمنی کرنے میں مشھور تھا۔ اس نے یہ بات یزید کو امام کے قتل سے بری کرنے کے لیے یہ بات کی ہے۔

ابن العربی کے علاوہ ابن حجر هيثمي و محمد كرد علي و تقي الدين ابن الصلاح و غزالي، و ابن تيميه و غيره کہ علماء اہل سنت ہیں انھوں نے مختلف عبارات کے ساتھ ان شبھات کو بیان کیا ہے۔ ان کتب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے:

الفتاوي الحديثية، ص193. و نيز مراجعه شود به: رساله ابن تيمية: سؤال در رابطه با يزيد بن معاويه ص 14 و 15 و 17، و كتاب العواصم من القواصم از ابن العربي ص 232 و233 و إحياء علوم الدين از غزالي، ج 3، ص 125 و الاتحاف بحب الأشراف، ص67 و 68 و الصواعق المحرقة، ابن حجر، ص 221 و خطط الشام، ج 1، ص 145 و قيد الشريد، ص 57 و 59.

یا بعض شیعہ علماء کی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں اور ناقص عقل سے غلط سمجھتے ہیں اور کوفہ کے لوگوں کو شیعہ علی(ع) و امام حسن(ع) کہتے ہیں پھر خود ہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوفہ کے شیعوں نے امام حسین(ع) کو شھید کیا ہے۔

چند نمونے ملاحظہ فرمایئں:

امام حسين (ع) نے کس کو بد دعا دی تھی ؟

احمد الكاتب اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ: امام حسين عليه السّلام نے شیعوں کو لعنت و بددعا کی ہے:

اللهم إن مَتَّعْتَهم إلي حين فَفَرِّقْهم فِرَقاً، واجعلهم طرائق قِدَداً، ولا تُرْضِ الوُلاةَ عنهم أبداً، فإنهم دَعَوْنا لِينصرونا، ثم عَدَوا علينا فقتلونا.

خدایا اس گروہ کو کم وقت کے لیے دنیا میں رکھنا، ان کا آپس میں اختلاف کرا کہ ان کو گروہ گروہ میں تقسیم کر دے اور کبھی بھی حاکموں کو ان سے راضی قرار نہ دے کیونکہ انھوں نے ہمیں دعوت دی ہے کہ ہماری مدد کریں گئے لیکن انھوں نے ہم سے دشمنی کی اور قتل کیا ہے۔

الإرشاد، شيخ مفيد، ج 2، ص 110.

جواب:

اگرچہ اس سوال کا جواب واضح ہے لیکن موضوع کے مہم ہونے کی وجہ سے اس بارے میں تفصیل سے جواب بیان کیا جا رہا ہے۔ پیروان بنی امیہ نے واقعہ کربلاء کے فوری بعد اور حتی عصر حاضر میں کوشش کی ہے کہ امام حسین(ع) کے قیام کو ایک بغاوت، فتنہ حکومت کے خلاف اور امت اسلامی میں تفرقہ کے عنوان سے لوگوں میں تعارف کروایا جائے۔ اس بنیاد پر وہ یزید کو امام کے قتل سے بری قرار دیتے ہیں۔

الف: زیادہ صحابہ کی گواہی کے مطابق یزید کی خلافت غیر شرعی تھی:

جب امام حسین(ع) اور کافی سارے صحابہ کہ سارے اہل حل و عقد امت تھے نے یزید کی خلافت کو قبول نہ کیا اور کہا کہ یزید ایک فاسق، فاجر ، شراب خوار اور زنا کار ہے ۔ صحابہ کی اس گواہی کے بعد اس کی خلافت کو شرعی و جائز کہنے کا کوئی شرعی جواز باقی نہیں رہ جاتا کہ امام حسین(ع) کے قیام کو حاکم کے خلاف بغاوت و امت میں تفرقہ کہا جائے۔ اس سے ان سب کے فتوے خود بخود باطل ہو جائیں گے کہ جو امام کے قیام کو خروج بر حاکم اور فتنہ و فساد کہتے ہیں۔

وہ صحابہ جو لشکر عمر سعد میں تھے اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہوئے:

چند صحابہ کربلاء میں لشکر یزید میں حاضر ہوئے اور فرزند رسول کے قتل میں شریک ہوئے۔

ان میں سے چند کے نام ذکر ہو رہے ہیں:

1 . كثير بن شهاب الحارثي:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال أبو نعيم الأصبهاني المتوفی : 430:

كثير بن شهاب البجلي رأى النبي(ص).

کثیر بن شھاب نے نبیّ (ص) کو دیکھا تھا۔

تاريخ أصبهان ج 2 ص 136 ، ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت - 1410 هـ-1990م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : سيد كسروي حسن

قال ابن حجر:

يقال ان له صحبة ... قلت ومما يقوي ان له صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون الا الصحابة وكتاب عمر اليه بهذا يدل على انه كان أميرا.

اس کے صحابی ہونا کا قوی احتمال ہے اس لیے کہ وہ فقط صحابہ ہی کو جنگ کی سپہ سالاری دیتے تھے۔

الإصابة في تمييز الصحابة ج 5 ص 571 نشر : دار الجيل – بيروت.

2 . حجار بن أبجر العجلي:

ابن حجر عسقلانی نے اسے صحابی کہا ہے اور بلاذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا ہے، کو نقل کیا ہے:

حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك.

اس نے نبی(ع) کے زمانے کو درک کیا ہے۔

الإصابة في تمييز الصحابة ج 2 ص 167 رقم 1957 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وحجار بن أبجر العجلي... .

امام حسین(ع) کو بزرگان کوفہ نے خط لکھے ہیں ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔

أنساب الأشراف ج 1 ص 411

وہ ایک ہزار کے لشکر کی سالاری کرتا ہوا کربلاء پہنچا:

قال أحمد بن يحيى بن جابر البلاذری:

وسرح ابن زياد أيضاً حصين بن تميم في الأربعة الآلاف الذين كانوا معه إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين، ووجه أيضاً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف.

وہ کربلاء میں ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شریک ہوا۔

أنساب الأشراف ج 1 ص 416

3. عبد الله بن حصن الأزدی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المتوفي: 852: عبد الله بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة۔

طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔

الإصابة في تمييز الصحابة ج 4 ص 61 رقم 4630، ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

کربلاء میں اس کا امام حسین(ع) کی توھین کرنا:

وناداه عبد الله بن حصن الأزدي: يا حسين ألا تنظر إلى الماء كأنه كبد السماء، والله لا تذوق منه قطرة حتى تموت عطشاً.

عبد اللہ ازدی نے کہا: اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔

أنساب الأشراف ج 1 ص 417

4. عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال ابن عبد البر المتوفي 463: عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن ...

اس کا نام عزیز تھا پھر رسول خدا(ص) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔

الاستيعاب ج 2 ص 834 رقم 1419، نشر : دار الجيل – بيروت.

اس کا قبیلہ اسد کی سربراہی کرنا اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہونا:

قال ابن الأثير المتوفي: 630هـ : وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد الله بن زهير الأزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن الأشعث بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤلاء كلهم مقتل الحسين.

وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سالار تھا اور کربلاء میں حاضر ہوا۔

الكامل في التاريخ ج 3 ص 417 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت

5. عزرة بن قيس الأحمسی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المتوفي: 852: عزرة بن قيس بن غزية الأحمسي البجلي ... وذكره بن سعد في الطبقة الأولى۔

اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ہے۔( یعنی صحابی تھا)

الإصابة في تمييز الصحابة ج 5 ص 125 رقم 6431، نشر : دار الجيل – بيروت.

اس نے امام حسين (ع) کو خط لکھا تھا:

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وعزرة بن قيس الأحمسی۔

اس نے امام حسین(ع) کو خط لکھا تھا۔

أنساب الأشراف ج 1 ص 411

گھوڑے سواروں کا سالار:

وجعل عمر بن سعد ... وعلى الخيل عزرة بن قيس الأحمسی۔

أنساب الأشراف ج 1 ص 419

وہ گھوڑے سوار لشکر کا سالار تھا۔

شھداء کے سر لے کر ابن زیاد کے پاس گیا:

واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر... وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد۔

أنساب الأشراف ج 1 ص 424

6 - عبـد الرحمن بن أَبْـزى:

له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى الله عليه وسلم وصلى خلفه۔

وہ صحابی ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(ص) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔

الإصابة - ابن حجر - ج 4 ص 239

زیاد ایک ہوشیار و ذہین انسان تھا اور سیاست کو بھی خوب جانتا تھا وہ پہلے شیعیان علی(ع) میں سے تھا لیکن جب وہ معاویہ سے مل گیا تو اس نے سخت ترین اور بد ترین مظالم خاندان اور شیعیان علی(ع) پر ڈھائے۔ زیاد وہی بندہ تھا جس نے حجر ابن عدی اور کے ساتھیوں کے قتل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

لسان الميزان، ابن حجر، ج 2، ص 495.

مذکورہ مطالب کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ واقعہ کربلاء کے وقت کوفہ میں کوئی قابل ذکر شیعہ بچا ہی نہیں تھا کہ جو امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کے لیے کربلاء آیا ہو۔ پس کیسے یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ کوفہ کے شیعوں نے امام حسین(ع) کو شھید کیا ہے ؟

کوئی بھی با انصاف انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ شیعوں نے امام حسین(ع) کو خط لکھے ہیں اور آنےکی دعوت دی ہے کیونکہ معروف ترین بندے جہنوں نے خط لکھے ہیں وہ شبث بن ربعي و حجار بن أبجر و عمرو بن حجاج و غيره ہیں کہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ یہ شیعہ تھے۔

تین خلفاء کے دور میں اہل کوفہ کی حالت:

بہت سی روایات اور کتب تاریخی دلالت کرتی ہیں کہ اس دور میں اہل کوفہ علی(ع) سے پہلے تین خلفاء کے حامی اور طرف دار تھے۔ بہترین دلیل اس مطلب پر یہ واقعہ ہے کہ بہت سے مصنّفین نے اپنی کتابوں اس کو ذکر کیا ہے۔

وہ یہ کہ ہو جب علی(ع) خلیفہ بنے تو انھوں نے جب چاھا کہ عمر کی ایجاد کی ہوئی بدعت(نماز تراویح) کو ختم کریں تو انھوں نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ مسجد جائے اور لوگوں کو اس کام سے منع کرے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو بس نے کہا «وا عمراه، وا عمراه» عمر کی سنت کو کیا کر رہے ہو عمر کی سنت کو کیا کر رہے ؟ اس پر علی(ع) نے فرمایا کہ «قل لهم صلوا» ان سے کہو کہ جیسے تمہارا دل ہے نماز پڑھو۔

وقد روي : أن عمر خرج في شهر رمضان ليلا فرأي المصابيح في المسجد ، فقال : ما هذا ؟ فقيل له: إن الناس قد اجتمعوا لصلاة التطوع ، فقال : بدعة فنعمت البدعة ! فاعترف كما تري بأنها بدعة، وقد شهد الرسول صلي الله عليه وآله أن كل بدعة ضلالة . وقد روي أن أمير المؤمنين عليه السلام لما اجتمعوا إليه بالكوفة فسألوه أن ينصب لهم إماما يصلي بهم نافلة شهر رمضان ، زجرهم وعرفهم أن ذلك خلاف السنة فتركوه واجتمعوا لأنفسهم وقدموا بعضهم فبعث إليهم ابنه الحسن عليه السلام فدخل عليهم المسجد ومعه الدرة فلما رأوه تبادروا الأبواب وصاحوا وا عمراه !

روایت ہوئی ہے کہ عمر ماہ رمضان میں رات کو گھر سے باہر آیا دیکھا کہ مسجد میں روشنی ہے۔ عمر نے پوچھا کہ اس وقت مسجد میں کیا ہو رہا ہے ؟ کہا گیا کہ لوگ مستحبی نماز پڑھ رہے ہیں( نماز مستحب با جماعت) عمر نے کہا یہ کام بدعت ہے لیکن اچھی بدعت ہے۔ خود عمر اعتراف ار رہا ہے کہ یہ کام بدعت ہے۔

رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ جب علی(ع) خلیفہ بنے تو انھوں نے جب چاھا کہ عمر کی ایجاد کی ہوئی بدعت(نماز تراویح) کو ختم کریں تو انھوں نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ مسجد جائے اور لوگوں کو اس کام سے منع کرے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو بس نے کہا «وا عمراه، وا عمراه» عمر کی سنت کو کیا کر رہے کیا تم عمر کی سنت کو ختم کرنا چاہتے ہو ؟

شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد از علماي اهل سنت، ج 12، ص 283 ـ وسائل الشيعة (الإسلامية) مرحوم حر عاملي از علماي شيعه، ج 5، ص 192، ح 2.

یہ واقعہ اس قدر بڑا ہو گیا تھا کہ مولا علی(ع) نے مسجد میں خطبہ پڑھا اور فرمایا:

میں نے اس تراویح کے مسئلے میں فقط کوفے میں حکومت اسلامی اور وحدت امت کے لیے زیادہ سختی سے کام نہیں لیا۔

مولا علی(ع) کا یہ قول واضح کرتا ہے کہ کوفے کے اکثر لوگ تابع و پیرو کار عمر تھے لھذا یہ کہنا کہ کوفے میں فقط شیعہ رہتے تھے غلط بات ہو گی۔

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسي، عن إبراهيم بن عثمان، عن سليم بن قيس الهلالي قال: خطب أمير المؤمنين عليه السلام فحمد الله وأثني عليه ثم صلي علي النبي صلي الله عليه وآله، ثم قال... قد عملت الولاة قبلي أعمالا خالفوا فيها رسول الله صلي الله عليه وآله متعمدين لخلافه، ناقضين لعهده مغيرين لسنته ولو حملت الناس علي تركها وحولتها إلي مواضعها وإلي ما كانت في عهد رسول الله صلي الله عليه وآله لتفرق عني جندي حتي أبقي وحدي أو قليل من شيعتي الذين عرفوا فضلي وفرض إمامتي من كتاب الله عز وجل وسنة رسول الله صلي الله عليه وآله ... والله لقد أمرت الناس أن لا يجتمعوا في شهر رمضان إلا في فريضة وأعلمتهم أن اجتماعهم في النوافل بدعة فتنادي بعض أهل عسكري ممن يقاتل معي: يا أهل الاسلام غيرت سنة عمر ينهانا عن الصلاة في شهر رمضان تطوعا ولقد خفت أن يثوروا في ناحية جانب عسكري ما لقيت من هذه الأمة من الفرقة وطاعة أئمة الضلالة والدعاة إلي النار.

امیر المؤمنین علی (ع) نے خطبہ پڑھا اور کہا:

مجھ سے پہلے خلفاء نے ایسے کام انجام دئیے ہیں کہ انھوں نے ان کاموں میں سنت رسول خدا(ص) کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے یہ مخالفت جان بوجھ کر کی ہے۔ اب اگر میں لوگوں کو کہوں کہ یہ سنت نہیں ہے اور ان کو سیدھا سنت کا راستہ دکھاؤں تو خود میرا لشکر مجھ سے دور ہو جائے گا اور اس کام میں کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔

خدا کی قسم میں نے لوگوں کو کہا ہے کہ ماہ رمضان میں مستحب نماز کو جماعت کے ساتھ نہ پڑھو کیونکہ یہ کام بدعت ہے۔ میری اس بات پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اے اہل اسلام عمر کی سنت تبدیل کر دی گئی ہے۔ میں نے فقط امت اسلامی میں تفرقے کے ڈر سے کسی کو کچھ نہیں کہا بس اتنا کہا ہے کہ بدعت کو انجام دینے والا جھنم میں داخل ہو گا۔

الكافي، شيخ كليني، ج 8، ص 58، ح 21

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ علی(ع) اپنے زمانے میں بھی کوفے میں شیعہ کو اقلیت میں مانتے تھے۔

شیعوں سے خالی کوفہ:

مہم ترین افراد کہ جہنوں نے امام حسین(ع) سے جنگ کی اور امام کو شھید کیا ان میں عمر بن سعد بن أبي وقاص و شمر بن ذی الجوشن و شبث بن ربعی و حجار بن أبجر و حرملة بن كاهل و سنان وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔

جتنے بھی افراد کے نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سے ایک فرد بھی شیعہ معروف و مشھور نہیں ہے۔

کوفہ مرکز حنفيان:( پیروان ابو حنیفہ)

کتب اسلامی اور فقھی میں یہ عبارت ذکر ہے کہ « هذا راي كوفي» یعنی یہ نظر و رائے ابو حنیفہ کے پیروکاروں میں سے ایک کی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ شهادت امام حسين (ع) سے چند سال بعد کوفہ حنفیوں کا مرکز بن گیا تھا اور یہ بات کوفے میں شیعوں کی کثرت سے ہونے کی نفی کرتی ہے۔

امام حسین(ع) کے قاتل شیعہ آل ابی سفیان:

امام حسین(ع) نے روز عاشورا لشکر یزید میں کافی سارے خطبے پڑھے ہیں ۔ان میں سے ایک خطبہ ہے جو امام نے اپنی شھادت سے بالکل تھوڑی دیر پہلے پڑھا ہے اور اس قوم ظالم کو اس طرح خطاب کیا ہے:

ويحكم يا شيعة آل أبي سفيان! إن لم يكن لكم دين، وكنتم لا تخافون المعاد، فكونوا أحراراً في دنياكم هذه، وارجعوا إلي أحسابكم إن كنتم عُرُباً كما تزعمون.

افسوس ہے تم پر اے پیروان آل ابی سفیان، اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تمہارا قیامت کے دن پر بھی ایمان نہیں ہے تو کم از کم دنیا میں غیرت سے کام لو اور اپنے حسب نسب کی طرف توجہ کرو کہ تم اپنے آپ کو عرب کہتے ہو۔

مقتل الحسين، خوارزمي، ج 2، ص 38 ـ بحار الأنوار، ج 45، ص 51 ـ اللهوف في قتلي الطفوف، ص 45.

[ دوشنبه نهم تیر ۱۳۹۹ ] [ 13:3 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

سادات کی فضیلت

ولایت کے لعل امام رضا علیہ السلام کا عدل اور حق گوئی

بیشک امام ایسا ھوتا ہے جو مرضی ء خدا کے فیصلے کرتا یے.

و روى عن سيّد السّاجدين عليه السّلام أنّه قال: إنّما خلقت النّار لمن عصى اللَّه و لو كان‏ سيّدا قرشيّا، و الجنّة لمن أطاع اللَّه و لو كان عبدا حبشيّا.

و ناهيك في المنع من التكبّر بالنّسب قوله عزّ من قائل: فَإِذا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلا أَنْسابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَ لا يَتَساءَلُونَ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَ مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خالِدُونَ‏.

بل أقول: إنه إذا كان البناء على افتخاره بأصله و نسبه القريب فليفتخر بأقرب اصوله و أنسابه و هو النّطفة القذرة و الدّودة الّتي خرجت من مبال أبيه، فأين الافتخار بالدّودة و أنّى التعزّز بالعلقة و المضغة.

منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة (خوئى)، ج‏9، ص: 98

📝 كيا ہر قسم كے سادات باعظمت ہيں ؟

ايك دن امام رضا عليہ السلام كے بھائى اور امام كاظم عليہ السلام كے بيٹے زيد لوگوں ميں خطاب كرتے ہوۓ كہہ رہے تھے كہ سادات كى بہت عظمت ہے، يہ خاندان بہت اعلىٰ مراتب پہ فائز ہے اور اس خاندان پر جہنم كى آگ اللہ تعالىٰ نے حرام قرار دى ہے ، ابھى يہى باتيں كررہے تھے كہ امام رضاعليہ السلام وہاں تشريف لاۓ اور فرماياكہ ’’يہ كيا باتيں ہيں جو تم لوگوں سے كہہ رہے ہو؟ وہ جو تم نے سن ركھا ہے كہ اولاد زہراؑ پر آتش جہنم حرام ہے اس سے مراد حضرت فاطمہ ؑ كى بلا فصل اولاد حضرت حسنين ؑ اور ان كى دو بہنيں ہيں‘‘ اگر اس كا مطلب يہ ہوتا جوتم بيان كررہے ہو كہ اولاد فاطمہؑ امتيازى خصوصيات كے حامل ہيں اور ہر لحظ سے اہل نجات ہيں ،تو پھر تم اپنے والد حضرت امام موسىٰ كاظم عليہ السلام سے زيادہ قابل احترام ہو ، اس لئے كہ انہوں نے دنيا ميں خدا كى اطاعت ميں زندگى بسر كى اور عابد شب زندہ دار تھے او تم خدا كى نافرمانى كرتے ہو تمہارے قول كے مطابق دونوں برابر اور اہل نجات ہيں پھر تو فائدے ميں رہے۔ كہ تم نے كوئى كام بھى نہ كيا اور بغير كسى پريشانى بھى نہيں اٹھائى اور ركھا ركھايا خزانہ تمہيں مل گيا۔

(سچى كہانياں، شہيد مرتضى مطہرىؒ، ج :۲، ص:۶۰)

امتیاز سادات و عدل الهی

در پاسخ به سهم سادات و حقوق بیشتر سادات باید توجه داشت که:
۱. سهم سادات هیچ گونه برتری اقتصادی و انباشت ثروت را پدید نمی آورد، زیرا:
اولا اختصاص به سادات فقیر دارد، به گونه ای که نه قدرتی برای کار کردن دارند و نه ثروتی که بتوانند با آن زندگی کنند علاوه بر آن نباید فاسق و متجاهر به فسق باشد.
ثانیا بر خلاف زکات، خمس را نمی توان آن قدر پرداخت کرد که یک دفعه فقیر سید غنی بشود و افزون بر مخارج سالانه مقداری را نیز سرمایه قرار دهد. این گونه سخت‌گیریها موجب برتری اقتصادی سادات بر غیر سادات نخواهد شد.

در پاسخ به سهم سادات و حقوق بیشتر سادات باید توجه داشت که:
۱. سهم سادات هیچ گونه برتری اقتصادی و انباشت ثروت را پدید نمی آورد، زیرا:
اولا اختصاص به سادات فقیر دارد، به گونه ای که نه قدرتی برای کار کردن دارند و نه ثروتی که بتوانند با آن زندگی کنند علاوه بر آن نباید فاسق و متجاهر به فسق باشد.
ثانیا بر خلاف زکات، خمس را نمی توان آن قدر پرداخت کرد که یک دفعه فقیر سید غنی بشود و افزون بر مخارج سالانه مقداری را نیز سرمایه قرار دهد. این گونه سخت‌گیریها موجب برتری اقتصادی سادات بر غیر سادات نخواهد شد. حتی اگر مقدار سهم سادات افزون بر حاجت ضروری سادات فقیره باشد، باید در جهات دیگری مصرف شود.
۲. اسلام روش تأمین جداگانه و مستقلی برای سادات در نظر گرفته است تا حالتی روانی ایجاد شود که اولا پیامبر(ص) همواره نسبشان را حفظ کنند و یاد و خاطره آن همواره محفوظ بماند و همواره در ذهنشان باشد که اولاد پیامبر(ص) و علی(ع) هستند و این مسأله محرک آنان به سوی اسلام و فعالیت و تلاش بیشتر در جهت حفظ اسلام باشد.
تاریخ نیز نشان داده است که سلسله جلیله سادات و به ویژه سادات علوی، از صدر اسلام تا کنون نیرو و محرکه در وجودشان بوده که آنان را به حمایت بیشتر از اسلام برانگیخته است. اگر قیام های مقدس در دوره اموی ها و عباسی ها به دست علویین صوررت گرفته است، در دوره های بعد نیز در میان طبقات مختلف علماء و حکما، ادبا، افرادی از پیامبر(ص) نسب برده اند، نسبت به دیگران در راه اسلام فعال تر بوده اند. احترام و اکرام سادات از بنی هاشم مطابق آیات و روایات معتبر اسلامی بر هر مسلمانی واجب می باشد. - با بررسی آیات قرآن تمامی پیامبران که در زمینه اجر و مزد رسالت و زحمات در این راه سخن گفته اند این تعبیر را دارند که ما از هیچ کس اجر و مزدی نمی طلبیم بلکه اجر ما تنها بر خداوند بزرگ است , (سوره ی شعرائ, آیات : ۱۰۹, ۱۲۷, ۱۴۵, ۱۶۴ و ۱۸۰ - سوره هود آیات ۲۹ و ۵۱ و سوره دیگر قرآن ), ولی درباره ی پیامبر اکرم سه تعبیر در قرآن آمده است ۱. بگو ای رسول ما, هیچ اجری از شما نمی طلبیم بلکه اجر و مزد رسالت من بر خداست (سوره سبائ, آیه ۴۷). ۲. از شما مردم اجری نمی طلبم مگر کسی که بخواهد راهی به سوی پروردگارش بیابد (فرقان , آیه ۵۷). ۳. بگو: از شما اجری نمی طلبیم مگر رعایت و محبت کردن شما نسبت به خویشان و اقربایم را. که پیامبر اکرم بدستور خود خداوند اجر و مزد رسالتش را دوستی و احترام و محبت به خویشان و ذریه اش قرار داده است . البته جمع این ۳ آیه که در یکی مزد نطلبیده و در آیه ای دیگر طلبیده , چنین است که اگر پیامبر محبت ذریه اش را خواسته , سود اصلی اش به خود مسلمانان بر می گردد زیرا محبت و احترام عامل موثری است برای پیروی کردن

.برای مطالعه بیشتر اشنایی با قران شهید مطهری ج۳ فصل ۶.

مطلب دیگر اینکه , در رابطه با این که سادات عذاب نمى شوند و به زمهریر برده مى شوند، روایتى به دست ما نرسیده است؛ بلکه در روایت آمده است: «خداوند جهنم را براى معصیت کاران آفریده اگر چه آن شخص عاصى سید قرشى باشد (ولوکان سیداً قرشیاً). قرآن نیز درباره قیامت مى فرماید: « لا انساب بینهم یومئذً و لا یتساءلون؛ هنگامى که در صور دمیده مى شود و قیامت برپا مى شود، ملاک آن روز نسب نیست»، (مؤمنون، آیه ۱۰) و امام سجاد(ع) نیز در جواب جابربن عبداللّه انصارى به این آیه استدلال فرمود؛ زیرا جابر دید حضرت خیلى در عبادت خودش را خسته کرده است، عرض کرد: اى پسر رسول خدا! شما فرزند پیامبرید و نیازى به این قدر عبادت ندارید؟ حضرت این آیه راتلاوت کردند و به کنایه به جابر فرمودند که آنچه در قیامت به حال انسان مفید است تنها اعمال او مى باشد. بلى نقایص مختصر با شفاعت و امثال آن رفع مى شود و روایات دیگرى هم در این زمینه هست و شاید توبیخى و سرزنشى که شامل حال سادات گناهکار مى شود، به دلیل رعایت نکردن شأن سیادت خود، بیشتر باشد.
کتاب مستقلى نیز در رابطه با این گونه مطالب دیده نشده، بلکه به طور پراکنده در کتاب هاى مختلف وجود دارد. درخاتمه متذکر مى شویم که وظیفه ما و همه مردم نسبت به سادات و فرزندان پیامبر(ص) این است که احترام آنان راحفظ کنیم. در روایت آمده است که: «سادات خوب را به خاطر خودشان احترام نمایید و سادات گناهکار را هم به خاطر پیامبر(ص)»، (اختصاص شیخ مفید).
برای آگاهی بیشتر در این زمینه توجهتان را به دو نکته توجه جلب می کنیم:
اول: با جمع روایات روشن مى شود که سادات نیز مانند همه مردم دیگر هستند و در صورت گناه مستحق مجازات اخروى مى شوند. چنانکه از امام رضا (سلام اللّه علیه) نقل شده است که خطاب به برادرشان که از راه راست منحرف شده بود و به اینکه از سلاله حضرت پیامبر اکرم (صلى اللّه علیه و آله و سلم) و حضرت فاطمه زهراء (سلام اللّه علیها) است؛ مى نازید و خود را اهل جهنم نمى دانست، فرمودند: «آیا فکر کرده اى که حضرت موسى بن جعفر (علیه السلام) خداوند را فرمانبردارى کند و روزها روزه بدارد و شبها به پاخیزد و تو خداوند را عصیان کنى و سپس هر دو روز قیامت مساوى باشید؟ و در این صورت تو از او نزد خداوند عزیزتر خواهى بود! همانا امام على بن الحسین (علیه السلام) مى فرمودند: «نیکوکاران ما دو اجر و زشت کاران ما دو عذاب دارند.» آنگاه امام رو به حسن وشاء فرمودند و با اشاره به آیه «قال یا نوح انه لیس من اهلک انه عمل غیر صالح» (هود، آیه ۴۶). (به وى گفتند: «او فرزند نوح بود، اما خداوند را عصیان کرد و خداوند نسبتش با پدرش را نفى کرد. همچنین هرکس که از خاندان ما باشد و خداوند را فرمانبردارى نکند، در حقیقت از ما نیست و اگر تو خداوند را پیروى کنى از ما هستى.»(شیخ صدوق؛ عیون الاخبار الرضا (علیه السلام) ج: ۱ ص: ۲۵۷). همچنین در نقل دیگر امام به برادر خود فرمودند: «به خدا قسم کسى به آنچه نزد خداوند است (یعنى ثواب اخروى و دورى از آتش جهنم) نمى رسد، مگر به فرمانبردارى او؛ و تو مى پندارى که با گناه به آن خواهى رسید؟ بد پندارى دارى!» وى به امام عرض مى کند: «من برادر شما و پسر پدر شما هستم.» امام فرمودند: «تو در صورتى که خداوند را فرمانبردارى کنى، برادر من هستى.» آنگاه به آیه سابق الذکر استناد کردند و فرمودند: «خداوند فرزند نوح را به دلیل گناهش از اینکه از خاندان نوح باشد، بیرون کرد.» (همان ص: ۲۶۰).
پس ملاحظه مى شود که از این جهت تفاوتى بین سادات و غیر سادات نیست. بلکه طبق حدیث امام سجاد (سلام اللّه علیه) سادات گناهکار دو برابر دیگران عذاب مى کشند، چنانکه فرمانبرداران آنها نیز دو برابر ثواب مى برند. (الحمیرى؛ قرب الاسناد، ص: ۳۵۷) دلیل آن نیز روشن است. زیرا آنها انتساب به پیامبر اکرم و امام على و حضرت زهراء (سلام اللّه علیهم) دارند و گناهان آنها، موجب ناراحتى بیشتر آنها مى شود و بنابراین گناهانشان دو برابر حساب مى شود. امام باقر (سلام اللّه علیه) به یکى از شیعیان که مبتلا به گناه بود، فرمودند: «نیکى از همه نیکو است از تو بهتر است، زیرا تو به ما نزدیک هستى و بدى از همه بد است و از تو بدتر است (زیرا به ما نزدیک هستى)»(ابن شهر آشوب؛ مناقب آل ابى طالب، ج: ۳ ص: ۱۵۹) ممکن است نظر پرسشگر به این باشد که روایاتی داریم که به صورت اطلاق و فراگیر گفته، سادات و ذریه پیامبر(ص) اهل بهشت می باشند مثلا در روایتی می خوانیم که پیامبر اکرم(ص) فرمود: «یا علی! ان الله قد غفر لک و لذریتک و لولدک و اهلک؛ ای علی! براستی خدا تو را و نسل تو را و فرزندان و اهلت را بخشیده است [در نتیجه وارد جهنم نمی شوند]»(۱). و در روایت دیگری از پیامبر اکرم(ص) می خوانیم که «هر کس با فرزند من غذا خورده باشد آتش بر جسد او حرام می شود»(۲). و یا فرمود: «اکرموا اولادی الصالحون لله و الطالحون لی؛ فرزندان من را اکرام کنید، خوبان را برای خدا و بدان را بخاطر [احترام به] من»(۳).
ممکن است روایاتی باشد (که ما برخورد نکردیم) به این مضمون که سادات در عالم برزخ و یا قیامت عذاب نمی شوند. از روایات فوق و امثال آن جواب های مختلفی می تواند داد؛ اولا نوعی از این روایات از نظر سندی اتصال به معصوم ندارد. ثانیا: این که هر سیدی در عالم برزخ و یا قیامت عذاب نمی شود، مخالف قرآن است چرا که قرآن صریحا ابولهب عموی پیامبراکرم(ص) را جهنمی می داند: «سیصلی نارا ذات لهب؛ و بزودی وارد آتشی شعله ور و پر لهیب می شود»(۴) با این که ابولهب هم سید بود چرا که سید در اصطلاح به کسی گفته می شود که نسبش از طریق پدر و مادر و یا از طریق پدر به هاشم جد بزرگوارش پیامبراکرم(ص) برسد(۵). جالب این است که در آیه می فرماید: «بزودی وارد آتش می شود» که ظاهرا همان آتش و جهنم عالم برزخ مراد و مقصود است و هر روایتی که مخالف قرآن باشد اعتبار ندارد. ثالثا: در خود همین روایات، برخی روایاتی داریم که مطلقات و عمومات را قید می زند به عنوان نمونه به برخی از آنها اشاره می کنیم: ۱. امام هشتم(ع) فرمود: «نگاه به تمام فرزندان پیامبر(ص) [و سادات] عبادت است تا وقتی که از راه پیامبر اکرم(ص) بیرون نروند، و به گناه آلوده نشوند»(۶). پس بهشت رفتن هم این قید را در بر دارد. ۲. امام صادق(ع) فرمود به حمران: «پس هر کسی شما [شیعیان] را مخالفت و از آن [راه شما] تجاوز کند پس از او بیزاری بجویید هر چند علوی (و سید) فاطمی باشد و اضافه کرد: هر کس در مسئله امامت و تشیع با شما مخالفت کند ملحد است. پس حمران عرض کرد: هر چند علوی (و سید) فاطمی باشد؟ پس امام صادق(ع) فرمود: هر چند محمدی، علوی، فاطمی باشد»(۷). و امام سجاد(ع) فرمود: «خداوند بهشت را برای کسی خلق کرده که اطاعتش می کند هر چند برده (سیاه) حبشی باشد، و جهنم را برای معصیت کار آفریده هر چند شریف (و سید) قریشی باشد»(۸). رابعا: ممکن است بگوییم که سادات هر چند در اوائل عمر بد باشند سرانجام پشیمان می شوند و به طریق صحیح هدایت می شوند لذا جهنم نمی روند این احتمال هم در برخی روایات ذکر شده است. عیاشی از امام صادق(ع) نقل کرده است که از حضرت(ع) در مورد قول خداوند «از اهل کتاب نیست مگر کسی که ایمان بیاورد به او، قبل از مرگش»(۹) سؤال شد. حضرت(ع) فرمود: این آیه درباره ما نازل شده است چرا که نیست از فرزند فاطمه(س) کسی که بمیرد و از این دنیا برود جز آن که به اطاعت امام [زمان] خود اقرار می کند چنانکه فرزندان یعقوب [بعد از آن همه نافرمانی و آزار] برای یوسف اقرار کردند»(۱۰).
نتیجه این شد که در عذاب برزخی و آخرتی بین سادات و غیرش فرقی نیست و اگر روایاتی در این زمینه آمده، اولا از نظر سند کامل نمی باشند، ثانیا با قرآن سازگاری ندارند، و ثالثا در خود روایات قیدی بیان شده است که ساداتی وارد بهشت می شوند و عذاب نمی شوند که از راه پیامبر(ص) و امامان(ع) خارج نشده باشند. اما آیا نوع عذاب همان عذاب است یا خیر؟ باید گفت هم مسائل دینی و تکالیف آن براساس انسان بودن افراد است نه سیاه و سفید، یا سید و غیر سید بود آن و هم پاداش و ثواب آن براساس رفتارها و اعمال انسان تنظیم شده است نه نسبت به قشر و اصناف و همین طور عذابها نیز براساس اعمال ناشایست انسان هر گناهی عذاب مخصوص دارد، هر کسی آن گناه را مرتکب شود و توبه نکند مشمول آن عذاب می شود خواه سیاه باشد یا سفید، سید باشد یا غیر سید، بلی سادات به خاطر نسبتی که پیامبر(ص) دارد ممکن است عذابش بیشتر باشد ولی نوعی بستگی به گناهی دارد که انجام داده است. کوتاه سخن آن که در بعضی روایات سفارش به احترام سادات شده خوبان را به خاطر خدا و بدان را به خاطر احترام پیامبر(ص) احترام و رعایت حرمت آنها ربطی به عذاب و مجازات های الهی ندارد، آنها هم باید در برابر اعمال خود پاسخگو باشند، حتی به خاطر انتساب به پیامبر(ص) انتظار بیشتری از آنان هست که حفظ این نسبت را داشته باشند و گناه نکنند و الا دو برابر مجازات می شوند زیرا از آنها انتظار گناه نمی رود. کسانی از عذاب نجات پیدا می کنند که فرزند و ذریه آنها حساب شوند نه اینکه ائمه(ع) از آنها بیزاری بجویند و بگویند از ما نیستند. عدل و حکمت الهی اقتضا دارد که نافرمانی و تخلف از دستورات الهی مجازات دارد، متخلف هر که باشد مجازات می شود.
پی نوشت ها: ۱. سید احمد موسوی مستنبط، القطره، مطبعه النعمان النجف، محرم، ۱۳۷۸ هـ.ق، ج ۲، ص ۷۶. ۲. همان، ص ۷۹. ۳. همان، ص ۷۹. ۴. سوره مسد، آیه ۳. ۵. آیت الله خوئی، مستند العروه الوثقی، لطفی، مطبعه العلمیه، ۱۳۶۴، کتاب الخمس، ص ۳۱۶. ۶. القطره، همان، ج ۲، ص ۷۵، روایت ۸. ۷. همان، ص ۸۱. ۸. همان، ص ۸۱. ۹. نساء، آیه ۱۵۰. ۱۰. سید احمد مستبط، القطره، نگارش قم، اول، ۱۴۱۸ هـ.ق، ج ۱، ص ۵۳۰ و تفسیر العیاشی، ج ۱، ص ۲۸۳، ح ۳۰۰ و بحار الانوار، ج ۷، ص ۱۹۵، ح ۴۳ و ج ۱۲، ص ۳۱۵، ح ۱۳۳ و ج ۴۶، ص ۱۶۶۸، ح ۱۱.

[ شنبه بیستم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 10:6 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

تقلید در روایات

تحریر؛ آیت اللہ مکارم شیرازی

در لسان روایات کلمه تقلید و مشتقات آنگاه به معناى لغوى و گاه به معناى اصطلاحى آن به کار رفته است.

در ارتباط با معناى لغوى تقلید مى توان به این دو مورد اشاره کرد:

1. امام رضا(علیه السلام) در ارتباط با خلافت و امامت مى فرماید: «... فقلّدها رسول الله علیاً». در مجمع البحرین در لغت «قلد» در توضیح این عبارت مى نویسد: «الزمه بها اى جعلها فى رقبته و ولاّه امرها ; رسول خدا، على(علیه السلام)را به امر خلافت ملزم ساخت; یعنى امر خلافت را به عهده او انداخت و وى را والى امر خلافت کرد».

2. در حدیثى ـ مطابق نقل کنزالعمّال ـ مى خوانیم: «من علّم ولدا له القرآن، قلده الله قلادة یعجب منها الاولون و الآخرون یوم القیامة; آن کس که فرزندش را قرآن بیاموزد، خداوند گردنبندى بر گردنش مى اندازد که در روز قیامت همگان از آن در شگفتى فرو مى روند».(1)

راى معناى اصطلاحى تقلید مى توان به این دو حدیث اشاره کرد:

1. هنگامى که على بن ابى طالب(علیه السلام) صعصعة بن صوحان را به سوى خوارج فرستاد، آنها به وى گفتند: آیا اگر على(علیه السلام) در این جا بود، تو با وى بودى؟ پاسخ داد: آرى; آنها گفتند: «فانت إذاً مقلّد علیاً دینک، ارجع فلا دین لک; بنابراین در دین خود پیرو على هستى، برگرد که دینى ندارى!».

صعصعه پاسخ داد: «ویلکم ألا اقلّد من قلّد الله، فاحسن التقلید; واى بر شما! آیا من از کسى که به درستى از خدا پیروى مى کند، پیروى نکنم؟».(2)


ادامه مطلب
[ یکشنبه چهاردهم اردیبهشت ۱۳۹۹ ] [ 20:12 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

قرآن میں بنی اسرائیل


ادامه مطلب
[ شنبه شانزدهم فروردین ۱۳۹۹ ] [ 12:15 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

لاک ڈاؤن اور سوشل میڈیا

  تحریر:  راجہ سعید عباس              Saeedvon@gmail.com

 

 

 

 


ادامه مطلب
[ شنبه شانزدهم فروردین ۱۳۹۹ ] [ 11:30 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

عقیدہ شفاعت قرآن کی روشنی میں

تحریر: راجہ غلام عباس جعفری


ادامه مطلب
[ چهارشنبه بیستم تیر ۱۳۹۷ ] [ 23:18 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]

بنی اسرائیل کے بارے میں شیخ محمد کی تفسیر کا رد

راجہ غلام عباس جعفری


ادامه مطلب
[ جمعه پانزدهم تیر ۱۳۹۷ ] [ 6:52 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
.: Weblog Themes By themzha :.

درباره وبلاگ

ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر
امکانات وب