قرآن کی روشنی میں بنی اسرائیل تحریر: راجہ غلام عباس یہ تحقیق اس تفسیر اور مفروضہ کے رد میں ہے۔جو شیخ محمد کی طرف سے نشر کیا گیا جس میں کہا گیا کہ سورہ فاتحہ میں جو ہم یہ کہتے ہیں اہدنا الصراط المستقیم ، وہ بنی اسرائیل کا راستہ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے تعلیم دی کہ راستہ ان لوگوں کا جن پر اللہ نے انعام کیا ، جب ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ انعام کن لوگوں پر ہوا تو قرآن کہتا ہے کہ فضیلت اور انعام بنی اسرائیل کو دیے گئے اور قیامت تک فضیلت اور انعام دیا ہوا ہے۔ ان کے مطابق نبی اکرم ص بھی بنی اسرائیل سے ہیں۔ جب کہ رد میں ہم نے بیان کیا کہ سورہ فاتحہ میں غیر المغضوب و لاالضالین بھی بیان ہوا ہے۔ اگرچہ بنی اسرائیل پر انعام ہوئے لیکن ساتھ اللہ کا غضب اور گمراہ بھی ہوئی۔ بہت زیادہ آیات دکھائی جس میں بنی اسرائیل کی مذمت،(انبیاء، اور خدا کی لعنت ، بنی اسرائیل پر ذلت اور مسکنت، زمین میں فساد کرنا اور آئندہ بھی فساد کرنا) بیان ہوا۔ اس سورہ صف کی 6 نمبر سے کسی طرح بھی یہ مطلب نہیں نکلتا جس سے یہ بات نکلے کہ نبی اکرم بنی اسرائیل سے ہیں۔ اور عقلا بھی اسرائیل حضرت اسحاق کا لقب تھا، جب نبی اکرم ص اسحاق کی اوعلاد سے نہیں تو بنی اسحاق کیسے ہو گئے؟ اللہ نے بنی اسرائیل سے فضیلت لے لی اور یہ فضیلت بنی اسماعیل کو دے دی۔ جس کی دلیل نبوت اور امات کا بنی اسماعیل میں باقی رہنا اور بنی اسرائیل سے خارج ہونا ہے۔ کسی نبی کی آل کے برے اعمال ہونے کے باوجود پوری آل پر لعنت نہیں کی اور پوری آل کی مذمت نہیں کی یہ ذلت صرف بنی اسرائیل کو ملی۔نوح ع کے بیٹے نے نافرمانی کی تو اللہ نے نہیں کہا کہ اے نوح تیری آل فاسق ہو گئی بلکہ کہا یہ تیری آل میں سے نہیں۔۔ اس کے مقابلے میں اللہ نے پوری بنی اسرائیل کی مذمت کی۔۔۔۔ مقدمہ قرآن مجید ایک جاویدانی کتاب ہے، اس پر ایمان ہر مسلمان کے لئے ضرور ی ہے اور اس کی تعلیمات قیامت تک کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ فرزندان اسلام نے نزولِ قرآن کے بعد جہاں پر قرآن مجید کے زبانی حفظ میں کوئی کمی نہیں چھوڑی وہیں اس میں تفکر اور تدبر کے لحاظ سےبھی مسلسل سعی و کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر صدی میں علمائے اسلام اور مستشرقین مسلسل قرآن مجید پر تحقیق کرتے چلے آئے ہیں اور بنی نوعِ انسان کی سعادت و خوش بختی اور نجات کے لئے اس سلسلے کو ہمیشہ جاری و ساری رہنا چاہیے۔ تحقیق و جستجو کے دوران جہاں پر افکار کے نئے دروازے کھلتے ہیں اور بصیرت کے نئے باب وا ہوتے ہیں وہیں غلط فہمیوں اور تفسیر بالرائے کا امکان بھی موجود رہتا ہے ، چنانچہ علمائے اسلام نے قرآن فہمی کے کچھ اصول وضع کئے ہیں اور تفسیر کے کچھ قواعد معین کئے ہیں تاکہ انسان قرآن مجید سے استفادہ کرنے کے بجائے اپنی رائے کو اس پر ٹھونسنا نہ شروع کر دے۔ چنانچہ ہم نے اس تحقیق میں ایک انتہائی اہم اور حساس موضوع پرانتہائی محتاط انداز میں قلم فرسائی کی کوشش کی ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ علمی و تحقیقی دنیا میں کوئی بھی دستاویز حرفِ آخر نہیں ہوتی اور ہر تحقیق میں مزید بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے،لہذا اس تحقیق کے حوالے سے قارئین کی آرا ،علمی نکات اور مشوروں کا خندہ پیشانی سے انتظار اور استقبال کیا جائے گا۔ ضرورت ِ تحقیق: یہ تحقیق اس ویڈیو کے جواب میں لکھی گئی ہے ۔ جوتقریبا آٹھ ماہ سے فیس بک پر گردش کر رہی ہے۔جس میں قرآن کی بدیہی آیات کو مخصوص اہداف کے پیش نظر عوام پر مشتبہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ لوگوں نے کمنٹس کیے ہیں لیکن وہ کمٹس ہزاروں میں ہیں ، ایک تو ان کو پڑھنا امکان سے باہر بھی ہے اور دوسرا بعض کا جواب درست بھی نہیں۔ جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد اس شبہے کا شکار ہو گئی ہے۔ اس لیے ایک جامع جواب کی ضرورت تھی۔ اس لیے اب ایک جامع جواب موصوف کے لیے اور قارئین کے لیے آمادہ کیا گیا ہے۔لیکن زیادہ توجہ قارئین محترم کی طرف دی گئی ہے۔ مذکورہ ویڈیو میں شیخ محمد صاحب کا کہنا ہے کہ جواب صرف قرآن سے دیں۔ جبکہ علمائے اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کی بعض آیات کو سمجھنے کے لیے فقط قرآن کافی نہیں اور احادیث کی بھی ضرورت ہے۔ اس لیے موصوف سے پہلے صرف اور صرف حجیت حدیث پر بات ہونی چاہیے تھی۔لیکن وقت کی قلت کے باعث ہم ان کے چیلنج کے عین مطابق صرف قرآن سے ہی جواب دیں گے۔ موصوف کی ویڈیو فیس بک میں کئی جگہوں پر شئیر ہوئی ہے ان میں سے ایک کا لینک بھی ہم بھیج دیتے ہیں۔ اس تحقیق میں ہم صرف بنی اسرائیل کی حقیقت کو قرآن کی روشنی میں بیان کریں گئے تاہم یاد رہے کہ موضوع کی طوالت اور عمق کے پیشِ نظر بہت سے ادبی نکات سے چشم پوشی کی گئی ہے اور نہایت سادہ الفاظ میں بحث کی گئی ہے تاکہ عام آدمی بھی اس تحقیق کو سمجھ سکے ۔ البتہ ہم آئندہ حسبِ توفیق، قرآن کی روشنی میں حجیت حدیث پر بحث کریں گے۔ گرامی القدر محقق کا مفروضہ موصوف کا کہنا ہے کہ بنی اسرائیل سے مراد ہم لوگ ہیں اور جو ہم یہ کہتے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم [1] (خدایا!ہمیں سیدھےراستے کی ہدایت کر، راستہ ان لوگوں کاجس پر تو نے انعام کیا ) اس راستے سے مراد بنی اسرائیل کا راستہ ہے کیونکہ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ مختلف آیات میں بیان ہوا ہے کہ اللہ نے فقط بنی اسرائیل پر انعام کیا ہے۔ اور تمام جہانوں پر بنی اسرائیل کو فضیلت دی ہے۔ جس کی دلیل يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَ أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَ إِيَّايَ فَارْهَبُونِ[2] ( اے بنی اسرائیل ! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا ہے اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو)۔ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَ أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ [3] (اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا اور تمہیں عالمین پر فضیلت دی۔) ان کے علاوہ دوسری چند آیات اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ بنی اسرائیل پر اللہ کا انعام ہوا اور انہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی۔ ساتھ ان کا کہنا ہے کہ جہاں پر بھی بنی اسرائیل کا ذکر ہوا ہے وہاں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اور یہ فضیلت قیامت تک خدا نے طبق قرآن دے رکھی ہے۔ سورہ صف کی ۶ نمبر آیت میں جہاں ذکر ہوا ہے ،اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہے، پس جب وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔ اس آیت سے استدلال کیا کہ چونکہ عیسی ع کو خطاب کیا کہ تمہاری طرف رسول بھیج رہا ہوں۔ اس لیے احمد یعنی نبی اکرم صلی اللہ و آلہ وسلم بھی اسرائیل ہیں۔ مفروضے کا جواب قرآن سے جو سورہ فاتحہ میں آیت ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم[4] (خدایا!ہمیں سیدھےراستے کی ہدایت کر، راستہ ان لوگوں کاجس پر تو نے انعام کیا ) اس آیت میں یہ بھی لکھا ہے کہ غَيرْ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّالِّين، نہ راستہ ان لوگوں جن پر تو غضبناک ہوا اور نہ گمراہوں کا ۔۔۔ یہ آیت یہ بھی بیان کرتی ہے کہ ممکن ہے ایک قوم پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہوں لیکن اللہ ان پر غضبناک بھی ہوا ہو اور وہ گمراہ بھی ہوئی ہوں۔ پس سورہ فاتحہ میں قطعا ان کا راستہ نہیں، جن پر نعمتیں کے ساتھ عذاب بھی نازل ہوا ہو اور وہ گمراہ بھی ہوئی ہوں۔ یہ بات تو قبول ہے کہ بنی اسرائیل پر اللہ نے بہت زیادہ نعمتیں نازل کی ہیں لیکن ان پر اللہ نے عذاب بھی نازل کیا ہے اور یہ طول تاریخ بھی گمراہ بھی رہیں اور اب بھی گمراہ ہیں۔ کچھ آیات میں اللہ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو ہم نے فضیلت دی جبکہ دوسری چند آیات میں صریح الفاظ کے ساتھ بنی اسرائیل کے برے اعمال کا ذکر بھی کیا۔ موصوف کا دعوی تھا کہ بنی اسرائیل کی پورے قرآن میں صرف تعریف بیان ہوئی ہے۔ جبکہ اس تحقیق میں ہم آپ کو وہ آیات دکھاتے ہیں جو بنی اسرائیل کے برے اعمال اور خدا کے بنی اسرائیل پر غضبناک ہونے کو بیان کر رہی ہیں۔۔ بنی اسرائیل کی ذلت و پستی بیان کرنے والی آیات بنی اسرائیل پر انبیاء کی لعنت اور ماضی میں بھی گمراہ رہنا لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذلِكَ بِمَا عَصَوْا وَ كَانُوا يَعْتَدُونَ [5] ( بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ، داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی گئی، کیونکہ وہ نافرمان ہو گئے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے)٭ كَانُوا لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ [6] (جن برے کاموں کے وہ مرتکب ہوتے تھے ان سے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے، ان کا یہ عمل کتنا برا ہے۔) و کانوا یعتدون ماضی استمرار ی یعنی ماضی میں بنی اسرائیل تجاوز کرتے رہے۔ 79 آیت کے آخر میں ما کانوا یفعلون ، بھی ماضی استمراری ہے یعنی ماضی میں دائما برے اعمال کرتے رہے۔ بنی اسرائیل پر خدا کی لعنت فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ نَسُوا حَظّاً مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ وَ لاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [7] (پھر ان کی عہد شکنی کی بنا پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یاددہانی کا اکثر حصّہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں پر برابر مطلع ہوتے رہوگے علاوہ چند افراد کے لہذا ان سے درگزر کرو اور ان کی طرف سے کنارہ کشی کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔) سورۃ مائدہ کی 12 نمبر آیت میں بیان ہوا۔ * وَ لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنىِ إِسرَ ءِيلَ وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنىَ عَشرَ نَقِيبًا۔۔۔ ۔۔۔۔ (اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیبوں کا تقرر کیا۔۔۔۔۔۔۔ پھر ۱۳ نمبر آیت میں بیان کیاکہ بنی اسرائیل نے اس عہد کو توڑ دیا۔ تب اللہ نے ان پر لعنت کی۔) بنی اسرائیل کا انبیاء کو قتل کرنا اور خدا کی طرف سے ذلیل ہونا اور بنی اسرائیل پراللہ کا غضب نازل ہونا سورہ بقرہ کی 61 نمبر آیت میں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ۔ و ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ وَ بَاءُو بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ذَالِكَ بِأَنَّهُمْ كاَنُواْ يَكْفُرُونَ بِايَاتِ اللَّهِ وَ يَقْتُلُونَ النَّبِيِّنَ بِغَيرْ الْحَق ذَالِكَ بمِا عَصَواْ وَّ كَانُواْ يَعْتَدُونَ:[8] ( اور (آخرکار) ذلت (ورسوائی) اور محتاجی (وبے نوائی) ان سے چمٹا دی گئی اور وہ الله کے غضب میں گرفتار ہو گئے۔ یہ اس لیے کہ وہ الله کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور (اس کے) نبیوں کو ناحق قتل کر دیتے تھے۔ (یعنی) یہ اس لیے کہ نافرمانی کئے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے۔) (ترجمہ جالندھری) سورہ بقرہ کی 40،47نمبر آیت میں اللہ قرآن میں صریحا بنی اسرائیل کا نام لے کر ان کو اپنی نعمتیں یاد کروا رہا ہے۔ آگے آیات میں انہی کا ذکر کرتے ہوئے ان کے برے اعمال بیان کیے۔ اور ۶۱ میں یہ بھی بیان کیا کہ اللہ نے ان پر ذلت اور مسکنت نازل کر دی،قیامت تک ۔اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا۔ بنی اسرائیل کا نبی اکرم صلی اللہ و علیہ و الہ وسلم کی تکذیب کرنا اور خدا پر بہتان موصوف نے سورہ صف کی آیت نمبر 6 کی تلاوت ترجمہ کے ساتھ اس آیت کے آخر میں لکھا ہے کہ جب ان کے پاس ( بنی اسرائیل) کے پاس روشن نشانیوں کے ساتھ پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آئے تو انہوں ( بنی اسرائیل) نے کہا یہ آشکارا جادو ہے۔ موصوف نے نہیں کہا کہ یہ کس نے کہا ؟قالوا ہذا سحر مبین ، یہ کہنے والے کہ یہ تو کھلا جادو ہے اسی آیت میں ہے کہ بنی اسرائیل نے کہا۔ کیونکہ کھلی نشانیاں جب بنی اسرائیل کے پاس لائے تو ہذا سحر مبین کہنے والے بھی وہی تھے۔ وَ إِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هذَا سِحْرٌ مُبِينٌ [9] (اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریم(ع) کے بیٹے عیسیٰ نے کہا کے اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) مجھ سے پہلے آچکی ہے (یعنی) تورات اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد( ص ) ہوگا ان کی بشارت سناتا ہوں۔ (پھر) جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ ( بنی اسرائیل) کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔ ) اس آیت میں حضرت عیسی ع نے یہ کہا میرے بعد جو نبی آئے گا اس کا نام احمد ہے۔ اس سے کیسے مراد لے لی کہ احمد بنی اسرائیل سے ہے؟؟؟؟؟ میریےبعد کا مطلب ، بنی اسرائیل سے ہونا ہے؟؟؟؟ عیسی ع کو کہا کہ تمہاری طرف بھیج رہا ہوں ، تمہاری طرف بھیجنے کا مطلب کیسے بن گیا کہ جو بھیجا جائے گا وہ بنی اسرائیل سے ہو گا؟ اس کے بعد والی آیت میں بنی اسرائیل کو ظالم اور جھوٹا کہا گیا ہے۔ وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلاَمِ وَ اللَّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ [10] اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ الزام لگائے جب کہ اسے اسلام کی دعوت دی جارہی ہو اور اللہ کبھی ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ دلیل عقلی: سب اسے قبول کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت اسماعیل کی نسل میں سے تھےنہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں سے ، اسرائیل حضرت اسحاق کا لقب تھا نہ کہ حضرت اسماعیل کا۔۔۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسحاق کی نسل سے نہیں تو بنی اسرائیل کیسے؟؟؟؟ بنی اسرائیل کی پیمان شکنی وَ إِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَ ذِي الْقُرْبَى وَ الْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً وَ أَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَ آتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِنْكُمْ وَ أَنْتُمْ مُعْرِضُونَ [11] اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپً قرابتداروںً یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا. لوگوں سے اچھی باتیں کرناً نماز قائم کرناًزکوِٰ ادا کرنا لیکن اس کے بعد تم میں سے چند کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور تم لوگ تو بس اعراض کرنے والے ہی ہو۔ أَ لَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكاً نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُوا قَالُوا وَ مَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ قَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَ أَبْنَائِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلاَّ قَلِيلاً مِنْهُمْ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ [12] (کیا تم نے موسیٰ علیہ السّلام کے بعد بنی اسرائیل کی اس جماعت کونہیں دیکھا جس نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ مقرر کیجئے تاکہ ہم راسِ خدا میں جہاد کریں. نبی نے فرمایا کہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر جہادواجب ہوجائے توتم جہاد نہ کرو. ان لوگوں نے کہا کہ ہم کیوں کر جہاد نہ کریں گے جب کہ ہمیں ہمارے گھروں اور بال بّچوںسے الگ نکال باہر کردیا گیا ہے. اس کے بعد جب جہاد واجب کردیا گیا تو تھوڑے سے افراد کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور اللہ ظالمین کو خوب جانتا ہے۔ ) بنی اسرائیل کا اپنی خواہشات کی پیروی کرنا لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلاً كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنْفُسُهُمْ فَرِيقاً كَذَّبُوا وَ فَرِيقاً يَقْتُلُونَ [13] (ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ہے اور ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے ہیں لیکن جب ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہش کے خلاف حکم لے آیا تو انہوں نے ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کردیتے ہیں۔) بنی اسرائیل کا حضرت عیسی ع کو شر پہنچانے کا ارادہ إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسىَ ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتىِ عَلَيْكَ وَ عَلىَ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكلَّمُ النَّاسَ فىِ الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَ إِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَةَ وَ التَّوْرَئةَ وَ الْانجِيلَ وَ إِذْ تخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيَةِ الطَّيرْ بِإِذْنىِ فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيرْا بِإِذْنىِ وَ تُبرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ تخُرِجُ الْمَوْتىَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ كَفَفْتُ بَنىِ إِسْرَ ءِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنهُمْ إِنْ هَاذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ [14] (جب عیسی بن مریم سے اللہ نے فرمایا: یاد کیجیے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی ہے جب میں نے روح القدس کے ذریعے آپ کی تائید کی، آپ گہوارے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے آپ کو کتاب، حکمت، توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب آپ میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر آپ اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور آپ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور آپ میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت آپ سے روک رکھا جب آپ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں نے کہا: یہ تو ایک کھلا جادو ہے۔ بنی اسرائیل زمین پر فساد کرنے والے ہیں وَ قَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوّاً كَبِيراً [15]
(اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے۔) مہم نکتہ اللہ نے اس آیت میں جو کہا کہ بنی اسرائیل زمین میں بنی اسرائیل فساد پھہلانے والے ہیں اس کے لیے ماضی کا صیغہ استعمال نہیں کیا۔کہ ماضی میں بنی اسرائیل ایسے گزرے ہیں ۔ بلکہ جو عربی سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہاں باب افعال کا مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا یعنی بنی اسرائیل کا حال اور آئندہ بیان کیا کہ وہ فساد کرنے والے ہیں۔ یہ بات خود تورات میں بھی لکھی گئی۔ بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان نہیں لایا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ كَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ[16] (مومنو! خدا کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ بھلا کون ہیں جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرے مددگار ہوں۔ حواریوں نے کہا کہ ہم خدا کے مددگار ہیں۔ تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور ایک گروہ کافر رہا۔ آخر الامر ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد دی اور وہ غالب ہوگئے۔) بنی اسرائیل کا نبی اکرم صلی اللہ و آلہ وسلم سے حسادت کرنا أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ آتَيْنَاهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [17] (یا جو خدا نے لوگوں کو اپنے فضل سے دے رکھا ہے اس کا حسد کرتے ہیں تو ہم نے خاندان ابراہیم (ع) کو کتاب اور دانائی عطا فرمائی تھی اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی .) بنی اسرائیل کے برے اعمال کی وجہ سے خدا نے نبوت ان سے لے لی گئی، اور اپنے آخری سب سے افضل نبی کو بنی اسماعیل میں بھییجا اور نبی اکرم صلی اللہ و آلہ وسلم کو کتاب اور حکمت دی۔ جس پر بنی اسرائیل حسادت کرتے ہیں۔ یعنی ْ آج بھی حسادت کرتے ہیں،یحسدون ، صیغہ مضارع ہے، جس میں حال اور آئندہ دونوں کا زمانہ آتا ہے۔ اور ایمان بھی نہیں لایا۔ اس آیت میں آل ابراہیم کا ذکر آیا ہے۔ آل ابراہیم میں حضرت اسحاق کی اولاد اور حضرت اسماعیل دونوں کی اولاد آتی ہے۔ اب اللہ نے کتاب اور حکمت اور نبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی تو بنی اسرائیل حسادت کرنے لگے سورہ صف کی 6 نمبر آیت میں ہے کہ بنی اسرائیل نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ نبی اکرم ص کی نبوت کو قبول نہیں کیا اور حسادت کرنے لگی ۔ جب نبی اکرم ص پرایمان نہیں لایا تو ان کی کوئی فضیلت نہیں رہتی۔ کیونکہ وہ اللہ کی اطاعت سے نکل گئے۔ کسی بھی نبی پر ایمان نہ لانا ، خدا کی اطاعت کی نافرمانی کرنا ہے۔ کیا نافرمانی کرنے کے باوجود بنی اسرائیل کی کوئی فضیلت رہ جاتی ہے؟ بنی اسرائیل کا اپنی من مانی کرنا اور کاذب ہونا كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلاًّ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلاَّ مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ [18] (بنی اسرائیل کے لیے کھانے کی ساری چیزیں حلال تھیں بجز ان چیزوں کے جو اسرائیل نے تورات نازل ہونے سے پہلے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں، کہ دیجیے: اگر تم سچے ہو تو تورات لے آؤ اور اسے پڑھو ۔) اللہ کی نعمتوں کی ناشکری خدا کسی قوم کو نعمت سے نوازتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ قوم ناشکری کرے ایسا نہیں جس قوم کو بھی نعمت دی وہ نیک پاک رہی۔ أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللَّهِ كُفْراً وَ أَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ [19]کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا ۔ خلاصہ موصوف نے کہا تھا کہ بنی اسرائیل کی قرآن نے صرف مدح بیان کی ہے ، جبکہ اوپر تمام کچھ آیات بیان کی ہیں جن میں بنی اسرائیل کے برے اعمال ذکر کیے گئے ہیں۔ اور خدا کا غضب بھی ان پر نازل ہوا۔ موصوف نے کہا کہ ہم نماز میں بنی اسرائیل کا راستہ مانگتے ہیں جبکہ اوپر آیات کی روشنی میں بنی اسرائیل پر خدا غضبناک بھی ہوا اور یہ گمراہ بھی ہوئے۔ جبکہ نماز میں ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ نہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو غضبناک ہوا اور نہ گمراہوں کا۔ موصوف نے کہا نبوت بھی بنی اسرائیل میں آئی اور کتاب بھی ، اس لیے بنی اسرائیل صرف فضیلت رکھتے ہیں ، جبکہ اوپر آیات میں بیان ہو چکا کہ انبیاء کو قتل بھی بنی اسرائیل نے کیا اور کتاب کو جھٹلانے والے بھی بنی اسرائیل میں سے تھے۔ اب یہ شبہہ کہ بنی اسرائیل پر اللہ نے انعام کیا یہ گمراہ نہیں ہو سکتے ، ابراہیم 28 میں یہ بھی بیان ہوا کہ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کو خدا نے نعمتیں دی ہوں اور وہ ناشکری کریں۔ خدا نے بنی اسرائیل کو نعمتیں بھی دی اور فضیلت بھی ، لیکن انہوں نے ناشکری کی، اور آیات میں واضح بیان ہوا کہ ان کو ذلت کی طرف پلٹا دیاگیا ہے۔ سورہ صف کی ۶ نمبر آیت سے استدلال کیا کہ عیسی ع نے کہا میرے بعد جو نبی آئے گا اس کا نام احمد ہو گا ، پس احمد بنی اسرائیل میں سے ہے۔۔ بشارت دینا کہ میرے بعد فلاں نبی ہو گا، بنی اسرائیل سے ہونا کیسے ثابت ہو گیا؟؟؟ یا اللہ کا یہ کہنا کہ تمہاری طرف نبی بھیج رہا ہوں سے کیسے ثابت ہو گیا کہ کہ آنے والا بنی اسرائیل سے ہو گا؟ اللہ نے نہیں کہا کہ تمہاری طرف ،تم میں سے نبی بھیج رہا ہوں۔ سب اسے قبول کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت اسماعیل کی نسل میں سے تھے ۔ نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں سے ، اسرائیل حضرت اسحاق کا لقب تھا نہ کہ حضرت اسماعیل کا۔۔۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسحاق کی نسل سے نہیں تو بنی اسرائیل کیسے؟؟؟؟ یہ دلیل عقلی ہے۔۔ موصوف نے یہ دلیل نہیں دی کہ بنی اسرائیل پر اللہ کا اب بھی انعام ہے۔انعمت ماضی کے صیغے سے حال اور آئندہ کیسے مراد لی؟ یعنی قرآن نے یہ بیان کیا کہ ماضی میں ہم نے نعمتیں دیں، موصوف نے حال اور آْئندہ کیسے مراد لیا؟؟ کس دلیل کہ تحت کہ دیا کہ اب بھی بنی اسرائیل پر اللہ کی نعمتیں ہیں۔؟ اور ساتھ فضلتکم بھی ماضی کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ بنتا ہے فضیلت دی۔ نہ کہ فضیلت ہے۔ اور رہے گی۔اس سے بھی موصوف نے حال اور آئندہ مراد کیسے لے لی؟ اور کیسے کہ دیا کہ قیامت تک فضیلت دی ہے آپ انکا رنہیں کر سکتے ۔ نعمتیں تو خدا کفار کو بھی دیتا ہے تو کیا ہم ان کے راستے پر بھی چلیں؟؟؟ بنی اسرائیل اپنے لیے خود نمونہ عمل نہیں تھے بلکہ ان کے لیے بھی حضرت عیسی ع نمونہ عمل تھے ۔۔ إِنْ هُوَ إِلاَّ عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَ جَعَلْنَاهُ مَثَلاً لِبَنِي إِسْرَائِيلَ [20] (مسیح فقط ہمارا بندہ تھا اور ہم نے انہیں کو نعمت دی اور بنی اسرائیل کے لیے نمونہ عمل بنایا۔) اس آیت میں نہیں کہا کہ عیسی ع کو بھی انعام دیا اور بنی اسرائیل کو بھی ، جس کا یہ مطلب سمجھ آتا ہے کہ خدا نے دائما بنی اسرائیل کو نعمات نہیں دیں۔ اور بنی اسرائیل کے لیے حضرت عیسی ع کو نمونہ عمل قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ خود بنی اسرائیل راستے کے محتاج تھے اور ان کا راستہ حجت نہیں بلکہ عیسی ع کا راستہ حجت ہے۔ جتنی مقدار میں حضرت عیسی ع کے نقش قدم پر رہیں گئے قابل قبول ہے باقی رد ہے۔۔ اس آیت میں جن پر انعام کیا گیا ان کا ذکر کرنے سے پہلے اطاعت کی بات کی تاکہ واضح ہو جائے کن لوگوں کا راستہ ہم مانگتے ہیں جن کی اطاعت کرنی ہے جو صراط مستقیم بھی ہے۔۔۔ بنی اسرائیل کی نعمتوں کے ساتھ کہیں نہیں لکھا کہ ان کے راستے پر آپ بھی چلو اس راستے کی اطاعت کرو۔ ہدایت یافتہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے نہیں ملایا " الَّذِينَ آمَنُوا وَ لَمْ يَلْبِسُوا إِيمانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَ هُمْ مُهْتَدُونَ" [21] قرآن کی روشنی میں انعمت سے مراد کون لوگ ہیں؟ اور کس راستے پر چلنا ہے۔ قرآن نے جس راستے راستے کی طرف ہدایت مانگنے کو کہا ہے وہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ ساتھ کہا ہے اس راستے کی اتباع کرو ۔جو اتباع کرے گا وہ بھی ان میں شمار ہو گا جن پر انعام کیا گیا۔ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقِينَ وَ الشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِينَ وَ حَسُنَ أُولٰئِكَ رَفِيقاً [22] ( اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔) بنی اسماعیل کا ذکر اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم علیہ السّلام و اسماعیل علیہ السّلام خانہ کعبہ کی دیواروں کو بلند کر رہے تھے اوردل میں یہ دعا تھی کہ پروردگار ہماری محنت کو قبول فرمالے کہ تو بہترین سننے والا اورجاننے والا ہے ، پروردگار ہم دونوں کو اپنا مسلمان او ر فرمانبردار قرار دے دے اور ہماری اولاد میں بھی ایک فرمانبردار امت پیدا کر. ہمیں ہمارے مناسک دکھلا دے اورہماری توبہ قبول فرما کہ تو بہترین توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔۔ [23] بقرہ 124 کے مطابق حضرت ابراہیم نے جب خدا سے کہا کہ میری ذریت میں بھی امامت رکھنا تو اللہ نے کہا کہ میری یہ عھد ظالمین کو نہیں پہنچے گا ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے ظالم کون ہیں؟؟؟ تو اللہ نے سورہ صف میں صریحا بنی اسرائیل کو ظالم کہا، اس کے علاوہ، ان کا انبیاء کو قتل کرنا ، زمین پر فساد کرنا وغیرہ سب بنی اسرائیل کے بارے میں آیا کہیں پر بھی بنی اسماعیل کے بارے میں نہیں آْیا اس لیے بنی اسرائیل تو اس عہد سے خارج ہو گئی ۔ اس طرح باقی بنی اسماعیل میں یہ فضیلت باقی بچی۔ اور عملا بھی خدا نے یہ فضیلت بنی اسماعیل کو دی۔ وَ إِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [24] (اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم علیہ السّلام کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت? ارشاد ہوا کہ یہ منصب امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔) قرآن نے دوسرے انبیاء کی آل کی فضیلت اور ان پر اپنے انعام کا ذکر کیا ہے۔ جیسے اس آیت میں أُولٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَ مِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَ إِسْرَائِيلَ وَ مِمَّنْ هَدَيْنَا وَ اجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوا سُجَّداً وَ بُكِيّاً [25] (یہ سب وہ انبیائ ہیں جن پر اللہ نے نعمت نازل کی ہے ذرّیت آدم میں سے اور ان کی نسل میں سے جن کو ہم نے نوح علیہ السّلامکے ساتھ کشتی میں اٹھایا ہے اور ابراہیم علیہ السّلام و اسرائیل علیہ السّلام کی ذرّیت میں سے اور ان میں سے جن کو ہم نے ہدایت دی ہے اور انہیں منتخب بنایا ہے کہ جب ان کے سامنے رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں ۔) لیکن بنی اسرائیل کا قرآن نے بیان کیا ہے یہ منحرف ہو گئے نبی ص پر ایمان نہیں لائے ،اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا۔ جب کہ دوسرے انبیاء کی آل کے بارے میں نہیں کہیں بھی ایسا نہیں کہا۔ جب حضرت نوح کا بیٹا ، گمراہ ہوا اور ڈوبنے لگا تو حضرت نوح علیہ السلام نے خدا کو پکارا تو خدا نے نہیں کہا کہ اے نوح تیری آل گمراہ ہو گئی، اب اولاد نوح پر عذاب آئے گا۔ بلکہ یہ کہا کہ یا نوح یہ تیری آل میں سے نہیں اس کا عمل غیر صالح ہے۔[26] ۔۔ اس طرح بنی اسرائیل کے بارے میں کہیں نہیں کہا کہ جس کا عمل غیر صالح ہو گا وہ بنی اسرائیل سے نہیں۔ بلکہ واضح الفاظ کے ساتھ بنی اسرائیل پر انبیاء اور اپنی لعنت بیان کی۔ ان کی گمراہیوں کو خود بنی اسرائیل سے نسبت دی۔۔ کسی آیت میں کسی نبی کی آل کے بارے میں ایسا نہیں کہا۔۔ امامت اور نبوت کا بنی اسماعیل میں رہنا ہی، بنی اسماعیل کی فضیلت ہے۔ اہل بیت کی فضیلت قیامت کے بعد بھی موصوف نے بنی اسرائیل کی قرآن کی کچھ آیات سے فضیلت بیان کی، فضیلت والی تمام آیات میں ماضی کا صیغہ ہے یعنی فضیلتیں اور نعمتیں ماضی میں دی گئی۔ قیامت تک آپ اسے مضارع نہیں بنا سکتے۔ جبکہ اہل بیت کی فضیلت خدا نے قرآن میں مضارع کے صیغے کے ساتھ بیان کی۔ اس کے ساتھ چند تاکیدیں بھی استعمال کی۔ انَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [27] (بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیہ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔) ذٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لاَ أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْناً إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ [28] (یہی وہ فضلِ عظیم ہے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے ایمان اختیار کیا ہے اور نیک اعمال کئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدرداں ہے۔) موصوف قیامت تک کوئی ایک آیت لے آئیں جہاں ایسی فضیلت کسی نبی کی ذریت کے لیے بیان ہوئی ہو۔ کہیں کہا ہو بنی اسرائیل سے مودت کرو۔ بنی اسرائیل کو ہم نے پاک کیا ہے۔۔۔ سب نبیوں کی رسالت کا اجر نبی اکرم صلی اللہ و آلہ وسلم کے اقرباء سے مودت ہے۔ ان دو ْآیات کا کوئی ترجمہ بھی کریں لیکن اہل اسلام پران دو آْیات سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیت کی فضیلت قیامت کے بعد بھی ہے۔ اور بنی اسرائیل کو ماضی میں بھی ایسی فضیلت نہیں ملی۔۔۔ نوٹ: ہم قرآن کے علاوہ احادیث کو بھی حجت سمجھتے ہیں ۔ حدیث کو پرکھنے کا راستہ موجود ہے ۔ اس لیے یہ عذر قبول نہیں کہ کہ احادیث جعلی بھی ہیں اور انسان تمام احادیث کا منکر ہو جائے۔ بنی اسرائیل کے بارے میں احادیث واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ وہ وہ کیسی مخلوق ہے۔ اور اسی طرح انعمت سے کیا مراد ہے؟ وغیرہ۔ لہذا پہلی بحث وہاں ہونی چاہیے۔۔۔ تعجب ہے ایسے افراد پر جو قرآن سمجھنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی احادیث کو قبول نہیں کرتے لیکن اپنی مرضی کی بات سمجھنے پر زور دیتے ہیں۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات حجت نہیں تو ایک عام آدمی کی بات کیسے حجت ہو سکتی ہے؟؟؟؟؟؟ نوٹ:ویڈیو کا لینک فیس پر پر مولوی کی شکل بنتا دیکھو کو سرچ کریں، تو صرف یہی ویڈیو آئے گی۔ تمام جگہوں پر جہاں بھی شئیر ہوئی ہے سامنے آ جائیں گی۔ اس تحریر سے مربوط سوال اور اعتراض کے لیے اس ایڈریس پر میل کریں۔ muslimpk03@gmail.com حوالہ جات فاتحہ 6 ، 7 بقرہ 40 بقرہ 47 ، 122 فاتحہ 6 ، 7 مائدہ 78 مائدہ 79 مائدہ 13 بقرہ 61 ۔ صف 6 ۔ صف 7 ۔ بقرہ 83 ۔ بقرہ 246 ۔ مائدہ 70 ۔ مائدہ 110 ۔ اسراء 4 ۔ صف ۱۴ ۔ نساء 54 ۔ آل عمران 93 ۔ ابراہیم 28 ۔ زخرف 59 ۔ انعام 82 ۔ نساء 69 ۔ بقرہ 127 ، 128 ۔ بقرہ 124 ۔ مریم 58 ۔ ہود 12 و 13 ۔ احزاب 33 ۔ شوری 23 |