Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ
| ||
لاک ڈاؤن اور سوشل میڈیا تحریر: راجہ سعید عباس سوشل میڈیا پر آتے ہی مختلف پوسٹس پر نظر پڑتی ہے جو معاشی،معاشرتی یا اخلاقی اقدار کے مثبت اور منفی پہلووں کو متعارف کرواتی ہیں جو سوشل ایکٹوسٹ، صحافیوں، طلباء، علماء کرام اور کچھ عطائی عالموں کے مرہونِ منت ہوتی ہیں۔ بہت سی پوسٹیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو پڑھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے، دل کو سکون اور روح کو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ پاکستانی باشعور اور پڑھی لکھی قوموں میں سے اک قوم ہے، جو معاشرے کی تلخ حقیقت اور سچائی کو اپنے اپنے انداز سے منظر عام پر لا کر معاشرے کی اصلاح کے لیے کوشاں ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر کچھ ایسے مناظر نظروں کے سامنے سے گزرتے ہیں کہ دل خون کے آنسوں روتا ہے اور دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پاکستانی قوم دنیا کی تمام قوموں سے کئی سو سال پیچھے زندگی بسر کر رہی ہے ، خود کو عقلِ کُل سمجھ کر اپنی ناسمجھی کے باوجود خود کو سمجھدار سمجھتی ہے،پوری دنیا کے مفکرین ان کے تخیل میں غلط ہیں،یہ قوم کم علمی کے باوجود فتوے صادر فرمانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی،اگر کوئی عالِم ان کی بات کی نفی کرتا ہے تو یہ اس پر کفر تک کا فتویٰ لگا دیتی ہے، اگر کوئی ڈاکٹر ان کی تخیلاتی دنیا کے آڑے آئے تو یہ اسے جاہل قرار دے دیتی ہے۔ اس سب کا ذمہ دار وہ چند لوگ ہیں جو کم عقلی اور کم علمی کے باعث خود کو عقلِ کُل اور عالمِ کُل سمجھتے(عطائی عالم) ہیں، جو نہ تو دین کے بارے ميں جانتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ان کے تخیل میں بننے والا ہر نقشہ ان کو دین کی اصل نظر آنے لگتا ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر جہاں سوشل ایکٹوسٹ، صحافی، ڈاکٹر، علمائے کرام اور دیگرخضرات سوشل میڈیا پر لوگوں کو COVID-19 جیسے مہلک وائرس سے بچانے کے لئے آگاہی فراہم کر رہے ہیں کہ آپسی میل جول کم کریں،شادی بیاہ دیگر اجتماعات پر مکمل پابندی لگائیں تاکہ اس مہلک وائرس سے عوام الناس کو بچایا جائے،اسی بات کے پیش نظر تمام علمائے کرام نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ تمام لوگ نماز باجماعت مسجد کی بجائے گھروں میں ادا کریں تاکہ آپکی وجہ سے کسی دوسرے کی زندگی موت میں تبدیل نہ ہو جائے۔ دوسری طرف عطائی عالم اپنی کم علمی، ناسمجھی اور فرسودہ خیالات کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی تردید کرنے میں مصروف ہیں ۔ آج ایک عطائی کی پوسٹ پڑھی جس میں لکھا تھا: "ہاتھ بھی ملائیں گے گلے بھی ملیں گے اور جمعہ بھی پڑھیں گے، دین میں شفاء ہے وباء نہیں " اس پوسٹ کو کئی سادہ لوح مسلمانوں نے دین کی خدمت اور امت کی اصلاح سمجھ کر لائیک اور شیئر بھی کیا جبکہ یہ نہ تو دین کی خدمت ہے اور نہ ہی امت کی اصلاح بلکہ یہ لوگ (دین کے لیے) لوگوں کے جزبات کو سہارا سہارا بنا کر اپنی واہ واہ حاصل کرنے کیلئے ایسی پوسٹس بناتے ہیں اور جانے انجانے میں لوگوں کی زندگی کو موت میں تبدیل کرنے کے عمل کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لہذا ایسی کوئی بھی پوسٹ شیئر کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ اس شعبے کے ماہرین کی اس بارے میں کیا رائے ہے، جب سب کہ سب یہ کہہ رہے ہیں کہ میل جول اور اجتماعات سے یہ مہلک وائرس پھیلتا ہے جس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے لہذا وباء کے ختم ہونے تک اجتناب کریں تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ان کی کہی بات پر عمل کریں تاکہ دوسرے لوگ ہماری وجہ سے ہونے والے ممکنہ نقصان سے بچ سکیں۔ اک اور عطائی عالم نے پوسٹ کی جسکا خلاصہ ہے: "ہمارا ایمان مضبوط ہے موت سے کیوں ڈریں جبکہ یہ مسجد میں موت شہادت ہے اور ہم اللہ کی راہ میں شہید ہونگے " اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ میں ارشاد فرمایاہے : " جس نے کسی انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچایا" اگر اس آیت کے مفہوم کو گہرائی سے پرکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ جو کوئی کسی ایک کی موت کا سبب بنا گویا وہ تمام انسانوں کی موت کا سبب ہے۔
ہر انسان کے سامنے صحیح اور غلط دو راستے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو سوچنے اور سمجھنے کے لیے عقل عطا کی ہے تاکہ ہم صحیح راستہ کا انتخاب کر سکیں، بس فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم نے کون سے راستہ پر چلنا ہے۔ سورہ انعام 104 : "دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آ گئی ہیں،اب جو بینائی سے کام لے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا" اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرمائے اور اس پر قائم رکھے.
[ شنبه شانزدهم فروردین ۱۳۹۹ ] [ 11:30 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
|
||
[قالب وبلاگ : تمزها] [Weblog Themes By : themzha.com] |