|
Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ
| ||
|
عزاداری کے متعلق چالیس حدیثیں حرارت عشق حسینؑی� (١)�پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا :مومنین کے دلوں میں امام حسینؑ کی شہادت کی ایسی حرارت ہے جو کبھی خاموش نہ ہوگی دنیا میں کئی انقلاب آئے اور آج کتابوں میں ان کا صرف نام باقی ہے جبکہ عملی طور پر آثار نہیں ملتے۔ واقعہ کربلا ایک ایسا واقعہ ہے جسے ہزاروں سال گزر گئے ہیں لیکن آج بھی زندہ و جاوید ہے دشمن نے بڑی کوشش کی لوگ کربلا کو بھول جائیں لیکن یہ ایک زندہ معجزہ ہے کہ عشق حسینؑ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ *⊱•┈┈•┈•⊰🌹🕋🌹⊱•┈•┈┈•⊰* ��عاشورا، غم کا دن� (٢)� امام رضاؑ نے فرمایا: جو شخص عاشورا کے دن مصیبت اور حزن کی حالت میں رہے تو خداوند عالم ایسے شخص کے لئے روز قیامت خوشی وخرم قرار دیگا یعنی اس دن وہ شخص خوشحال ہوگا۔� رسول خداؐ نے فرمایا کہ حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں ایک اور جگہ فرمایا: اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسینؑ سے محبت کرے�اب امام حسینؑ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ حسینؑ کا غم ہمارا غم، حسینؑ کی خوشی ہماری خوشی، ولادت ہوتو خوشی منائیں اور عاشورا آئے تو غم واندوہ کی حالت میں رہیں، لہذا عاشورا کے دن غمگین آنکھ روز قیامت خوشحال ہوگی۔ (٣)��محرم، ماہ سوگواری� (٤)� امام رضاؑ: نے فرمایا:جب محرم کا مہینہ آتا تو میرے والد محترم امام موسی کاظمؑ کو کوئی ہنستے نہیں دیکھتا بلکہ غم کی حالت میں رہتے اور جب دس محرم کا دن آتا تو سارا دن آہ وبکا اور رونے میں گذرتا تھا۔� ��قیامت کے دن وہ آنکھیں (٥)� پیغمبر اکرمۖ فرماتے ہیں: اے فاطمہ! روز قیامت غم حسینؑ میں رونے والی آنکھ کے علاوہ ہر آنکھ روئے گی بلکہ ایسی آنکھ خوشحال ہوگی اور اسے جنت کی نعمتوں کی بشارت دی جائے گی۔ روایت میں ملتا ہے جو شخص خود روئے یا رولائے یا رونے جیسی شکل بنائے خداوند عالم سب کو ثواب عطا کرتا ہے۔ روز قیامت حشرو نشر کا وقت ہوگا۔ دوسری آنکھیں روئیں گی لیکن غم حسینؑ میں رونے والی آنکھ مسرور ہوگی۔ .(٦)� حضرت صادقؑ فرماتے ہیں: پورا ایک سال دن رات امام حسینؑ کے لئے نوحہ خوانی ہوئی اور روز شہادت سے لےکر تین سال تک سوگواری برپا رہی۔� اس حدیث میں امامؑ بیان فرما رہے ہیں نوحہ خوانی اور ماتم داری آج شروع نہیں ہوئی بلکہ شہادت کے فوراً بعد عزاداری کے مراسم برپا ہوئے تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ عزاداری ونوحہ خوانی بعد کی ایجاد ہے بلکہ اس کی بنیاد خود اہل بیتؑ نے رکھی ہے۔ ��عزاداری کے لئے خرچ کرنا (٧)� امام صادقؑ فرماتے ہیں: میرے والد امام باقرؑ نے فرمایا: اے جعفر! اپنے مال سے اتنی مقدار مال نوحہ خوانوں کے لئے وقف کرو تاکہ لوگ حج کے دوران منی میں دس سال تک سوگ منائیں ۔ اس حدیث سے یہ ملتا ہے کہ اگر عزاداری پر خرچ کرنا پڑے تو درایغ نہ کرو، لہذا پہلے خود امامؑ نے کچھ مال عزاداری اور نوحہ خوانوں پر وقف کرکے بتایا کہ تم بھی ذکر حسینؑ پر مال خرچ کرنے سے کنجوسی نہ کرو بلکہ عزاداری عبادت ہے اور عبادت پرخرچ کرنے سے ثواب ملتا ہے، قیامت کے دن یہی مال کام آئے گا۔ ��روایتی نوحہ خوانی (٨)� ابو ہارون مکفوف نے کہا: میں امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھ سے اشعار پڑھنے کی فرمائیش کی میں نے شعر پڑھے لیکن آپ نے فرمایا، اس طرح نہیں ! بلکہ جس طرح تم اپنے لئے اشعار پڑھتے ہو اور جس طرح تم امام حسینؑ کی قبر پر مرثیہ خوانی کرتے ہو ۔ ��امام حسینؑ کے لئے اشعار پڑھنے کا ثواب (٩)� امام صادقؑ فرماتے ہیں: جو شخص غم حسینؑ میں اشعار پڑھے اور اس سے روئے اور دوسروں کو بھی رولائے تو خدا وند عالم ایسے شخص پر جنت واجب کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے۔� امام حسینؑ کے غم میں اشعار پڑھنا یا دوسروں کو ان کے غم میں رلانا جنت کا باعث ہے اور انسان کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں یاد رہے۔ ��مدح اہل بیت (١٠)�امام صادقؑ: فرماتے ہیں: جو شخص ہم اہل بیتؑ کے لئے ایک شعر پڑھے، خداوند عالم اسے جنت میں ایک گھر عطا کرے گا۔� اس حدیث میں امام کا یہ بتانا کہ غم حسینؑ میں اگر خلوص سے ایک شعر بھی پڑھا جائے تو جنت ملتی ہے۔ بعض لوگ کمیت کو دیکھتے اور کیفیت کو نہیں جانتے، خدا وند عالم عمل احسن یعنی بہترین عمل چاہتا ہے اسے ایسا عمل کثیر بھی پسند نہیں جس میں خلوص نہ ہو۔ لہذا ایک شعر پڑھ کر یہ نہ سمجھ لینا کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ یہ ایک شعر جنت میں لے جائے گا۔ ��اہل بیتؑ کے مدح خوان (١١)� امام صادقؑ فرماتے ہیں: خدا کا شکر ہے کہ اس نے لوگوں میں سے کچھ ایسے مدح خوان قرار دئے جو ہم اہل بیت کے پاس آتے ہیں اور مرثیہ خوانی کرتے ہیں۔� سب سے پہلے ہم اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اہل بیتؑ کے ماننے والوں میں قرار دیا اور خدا کی طرف سے ہمارے لئے یہ ایک بڑی نعمت ہے، لہذا اس نعمت کی قدر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ��ایام محرم میں اشعار پڑھنا (١٢)� امام صادقؑ نے دعبل شاعر سے فرمایا: اے دعبل! مجھے غم حسینؑ کے اشعار پسند ہیں کیونکہ یہ دن ہم خاندان اہل بیتؑ کےلئے غم و اندوہ کے دن ہے، اہل بیتؑ کی مدح میں اشعار پڑھنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور پڑھنے والے کی بڑی اہمیت ہے لیکن یاد رکھو! عزاداری ہو یا ماتم داری شعر ہو یا نثر، غنا کی طرز پر نہ پڑھنا کیونکہ غنا حرام ہے، بعض اوقات گانوں کی طرز پر پر نوحہ خوانی ہوتی ہے جو اسلام میں جائز نہیں ہے۔ حتیٰ قرآن کو غنا کی طرز پر پڑھنا حرام ہے، البتہ خوش لحن افراد موجود ہیں جو پڑھتے ہیں لیکن غنا نہیں لہذا یہ افراد مستثنیٰ ہیں۔ ��مرثیہ خوانی اہل بیت کی نصرت ہے (١٣)� امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اے دعبل! حسین بن علیؑ کے لئے مرثیہ پڑھو ،تم جب تک زندہ ہو ہمارے مددگار اور مدح خوان رہو اور جتنا ممکن ہوسکے ہمارے ذکر سے کوتاہی نہ کرو۔� اس حدیث میں امام رضاؑ فرما رہے ہیں امام حسینؑ کی عزاداری کے لئے مرثیہ خوانی کرنا درحقیقت اہل بیت کی نصرت ہے۔ مدح خوان اہل بیت کا مددگار اور ناصر ہوتا ہے۔ ��خوشی اور غم (١٤)� علی علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے ہمارے لئے شیعہ لوگوں کو ہماری مدد کے لئے انتخاب کیا جو کہ ہماری خوشی میں خوشحال اور غم میں غمگین ہوتے ہیں۔� ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ہمیں سب سے بڑا افتخار یہ ہے کہ آل محمدۖ کے ماننے والوں میں سے ہیں امام اس حدیث میں ہماری طرف سے ان کے ذکر کرنے کو ان کی مدد فرمایا . ہم اہل بیت کی کیا مدد کرسکتے ہیں ؟�شیعہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ اہل بیت کے غم کو غم اور خوشی کو خوشی سمجھتے ہیں، جیساکہ انہوں نے فرمایا کہ غم کا دن ہے تو یہ دن ہمارے لئے غمگین ہوگا اور جس دن خوشی ہو اسی دن ہم بھی خوش ہوتے ہیں۔ ��عبرت آموزشہادت (١٥)� حضرت امام حسینؑ فرماتے ہیں: میں عبرت آموز مقتول ہوں اور ہر مومن مجھ پر میری مصیبت کے لئے روئے گا۔� آپ کی شہادت ایک عبرت ناک شہادت ہوئی۔ کربلا کے صحرا میں اہل بیتؑ اور اہل وعیال سمیت بھوکے پیاسے شہید ہوئے۔ علی اصغر کی شہادت کتنی عبرت ناک ہے۔ عصر عاشورا کو حسینؑ کی شہادت کے بعد خیام کو آگ لگائی گئی۔ چادریں لوٹی گئیں۔ ��آنسو کا ایک قطرہ (١٦)� حسین بن علی علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص ہماری مصیبت پر آنسو کا ایک قطرہ بہائے خدا وند عالم اسے جنت نصیب فرمائےگا۔� اس حدیث میں امام حسینؑ کے غم میں آنسو کا ایک قطرہ بہانے والے کا ثواب جنت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ تم کو غم حسینؑ میں آنسو بہانےکا بہت ثواب ملتا ہے لیکن یاد رکھو! خدا خالص غم کو پسند کرتا ہے ریا کاری دکھاوا ثواب کو ختم کردیتے ہیں، آج بھی ہمارے معاشرے میں اگر کوئی دس محرم کے دوران مرجائے تو دفن کردیتے ہیں اور فاتحہ کے مراسم دس محرم کے بعد برپاہوتے ہیں، یعنی لوگ اپنے غم پر حسینؑ کے غم کو مقدم جانتے ہیں۔ ��عزاداری کا ثواب (١٧)� امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر وہ مومن جو امام حسینؑ اور آپ کے شہداء کے غم میں روئے تو خداوند عالم اس کے بدلے اسے جنت میں ایک مقام عطا کرے گا۔�اس دوسری حدیث میں بھی آنسو بہانے کے ثواب کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ جس شخص کا صرف ایک آنسو جاری ہوکر رخسار تک آجائے تو اسے جنت نصیب ہوگی۔ ��اولاد فاطمہؑ کی یاد (١٨)� امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں :مجھے جب بھی اولاد فاطمہؑ کی شھادت یاد آتی ہے تو میری آنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے ہیں۔� اس میں تمام اہل بیتؑ کے غم میں آنسو بہانے کے لئے فرمایا گیا ہے، امام فرماتے ہیں اولاد فاطمہ میں سے مجھے جب کسی کی شہادت یاد آتی ہے تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں، ہمارے لئے صرف کربلا کا غم نہیں بلکہ مولا علیؑ کو مسجد میں شہید کیا گیا اور امام حسن کو زہر دیا گیا، ہمارے ہر امام یا زہر سے یا تلوار سے شہیدہوئے۔ �گھروں میں عزاداری برپا کرنا (١٩)�امام باقر علیہ السلام نے ان افراد کے لئے جو عاشورا کو امام حسینؑ کی زیارت نہیں کرسکتے،فرمایا: ہر شخص اپنے گھر امام حسینؑ پر نوحہ خوانی وعزاداری کرے اور اپنے اہل خانہ کو بھی ایسا ہی دستور دے اور گھر میں عزاداری کے مراسم برپا کرے اور ایک دوسرے کو تعزیت پیش کرے۔ � � شہداء کربلا کے لئے حضرت علیؑ کے آنسو (٢٠)� امام باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت علیؑ اپنے دو اصحاب کے ہمراہ کربلا سے گزرے اور جب کربلا کی سر زمین پر پہنچے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمانے لگے: اس سر زمین پر شہداء کی سواریاں رکیں گی اور اسی جگہ ان کا خون بہایا جائے گا، اے زمین! تو کتنی خوش نصیب ہے کہ تیرے اوپر شہداء کا خون بہایا جائے گا۔ ��آنسو بہانے کا فائدہ (٢١)� امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: جس شخص کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اگر وہ مچھر کے پر کے برابر بھی آنسو بہائے تو خدا وند عالم اس کے بدلے جنت میں گھر عطا کرے گا اور یہ آنسو انسان اور دوزخ کی آگ کے درمیان حائل ہونگے۔� جو شخص غم حسینؑ میں روئے یا رلائے یا رونے کی شکل بنائے اس پر جنت واجب ہے، اس حدیث میں امامؑ فرمارہے ہیں کہ اگر غم حسینؑ میں مچھر کے پر کے برابر بھی آنسو بہایا جائے تو اس کو کم نہ سمجھو بلکہ اس کی بھی بڑی قدر وقیمت ہے اور ایسے شخص کو بھی جنت نصیب ہوگی اس کے علاوہ غم حسینؑ میں بہنے والے آنسو دوزخ کی آگ سے ڈھال کا ہونگے۔ بیس سال گریہ (٢٢)� امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :امام زین العابدین علیہ السلام کربلا کی یاد میں بیس سال روئے اور جب بھی ان کے سامنے کھانا رکھا جاتا تو رونا شروع کردیتے تھے۔�(روایت میں ملتا ہے کہ جب کوئی مومن پانی پیے تو امام حسینؑ کی پیاس کو ضرور یاد کرے) ۔ ��سوگواری کا طریقہ (٢٣)�امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب رسول خداۖکا بیٹا ابراہیم فوت ہوا تو آپۖ کی آنکھیں آنسو سے بھر آئیں اور پھر فرمایا:�آنکھیں روئیں گی اور دل غمگین ہوگا اور خدا سے شکوہ نہیں کریں گے، اے ابراہیم! ہم تیرے سوگ میں غمگین ہیں۔�(اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ رونا فطرتی عمل ہے کیونکہ جب رسول خدا ۖ کے بیٹے ابراہیم دنیا سے گئے تھے تو آپۖ رسول تھے لیکن بیٹے کے غم میں وہ بھی روئے)۔�اگر رونا گناہ ہوتا تو حضرت حمزہؑ کے میت پر رسول خدا ۖ نے عورتوں کو اکٹھا ہو کر نوحہ کرنے کی اجازت کیوں دی؟ خود آنحضرتۖ نے حکم دیا تھا کہ حضرت حمزہؑ کے لئے نوحہ خوانی کی جائے۔ اگر رونا جائز نہ ہوتا تو اللہ کے نبی یعقوبؑ اپنے بیٹے یوسفؑ کے بچھڑنے کے غم میں اتنا کیوں روتے کہ آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔ ��اشکبار آنکھیں (٢٤)�امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :جس انسان کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اس کی آنکھیں اشکبار ہو تو خدا وند عالم اس کے چہرے پر دوزخ کی آگ حرام کردے گا۔� (غم حسینؑ میں رونے والی آنکھ پر دوزخ کی آگ حرام ہے ۔ محرم کے مہینے میں تو صرف امام حسینؑ اور ان کے باوفا اصحاب کا نام سنتے ہی انسان کی آنکھوں سے آنسوؤں جاری ہوجاتے ہیں۔ روایت میں ملتا ہے کہ امام سجاد نے فرمایا کہ مسور کی دال کھایا کرو کیونکہ اس کے کھانے سے انسان میں آنسو پیدا ہوتے ہیں)۔ ��اہل بیتؑ کا ذکر (٢٥)� امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دوسرے کی زیارت کیا کرو، ایک دوسرے کی ملاقات کو جائو، مذاکرہ کرتے رہو اور ہماری ولایت کو زندہ رکھو۔� اس حدیث میں تین اخلاقی نکات کی طرف اشارہ ہے۔�١۔ مومنوں کو ایک دوسرے کا دیدار کرنا چاہئے تاکہ صلہ رحمی کا حق ادا ہو۔�٢۔ ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرنا، ایک دوسرے کو تذکر دینا۔�٣۔ ولایت اہلبیتؑ کو زندہ رکھنا، اسلام میں ہر مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے، کیونکہ اہل بیت کاذکر عبادت ہے۔�لہذا دینی بھائی کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن میں ایک حق یہ ہے کہ اس کے گھر میں اس کی خیرو عافیت کی خبر لینی چاہیے۔ ��مجالس حسینؑی (٢٦)� امام صادق علیہ السلام نے فضل سے پوچھا: کیا تم اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔�آپ نے فرمایا: میں ایسی مجالس پسند کرتا ہوں، ہماری امامت کو زندہ رکھو، خدا اس انسان پر رحم کرے جو ہمارے ذکر کو زندہ کرتا ہے ۔�(اس حدیث میں یہ ملتا ہے کہ انسان مجالس حسینؑی میں ذکر اہل بیت کرے اور ان کے فضائل بیان کئے جائیں)۔ ��آنسو کی قدر و منزلت (٢٧)� امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خدا تیرے آنسو کو تیرے لئے رحمت قرار دے۔ آگاہ رہو ! تم ان افراد میں سے ہے جو ہماری خوشی میں خوشحال اور ہمارے غم سے غمگین ہوتے ہیں، آگاہ رہو ! تم حالت احتضار میں اپنے سرہانے میرے بابا کو پائے گا۔� امام حسینؑ اور دوسرے اہل بیت کے غم میں رونے سے انسان رحمت خدا کا مستحق بن جاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ قبر میں مولا تشریف لائیں گے۔ ��غمگین دل (٢٨)�امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے خدا ! ہمارے غم میں آنسو بہانے والی آنکھوں پر رحم فرما، ان دلوں پر رحم فرما جو ہمارے غم غمگین ہوں۔ اور ہمارے لئے آہ وبکا کرنے والوں پر رحم فرما۔�اس حدیث میں امامؑ اپنے ماننے والوں کے لئے دعا کر رہے ہیں کہ خدایا ! غم حسینؑ پر رونے والے لوگوں پر رحم فرما، ہمیں یہ فخر ہے کہ خود امامؑ ہمارے حق میں دعا فرمارہے ہیں اور امام کی دعا یقیناً قبول ہوتی ہے۔ ��شیعون کی مظلومیت پر گریہ (٢٩)� امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو آنکھ ہماری مظلومیت پر روئے یا ہمارا حق غصب ہونے پر روئے یا ہماری اور ہمارے اصحاب کی آبرو کی حرمت پر روئے تو خداوند عالم اسے ہمیشہ رہنے والی جنت میں داخل کرے گا۔�(امام صادقؑ فرمارہے ہیں کہ جو آنکھ ہمارے غم اور ہمارا حق غصب ہونے پر روئے ،اسے جنت نصیب ہوگی صرف یہ نہیں بلکہ اگر ہمارے ماننے والوں پر ظلم ہو اور ان کی آبرو ریزی ہو تو اس پر افسوس کرے اور مومن کی مظلومیت کو اکھٹاذکر کیا ہے۔ امامؑ کو ہماری مظلومیت کا احساس بھی ہے)۔ ��بے حد ثواب (٣٠)�امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر چیز کا کچھ نہ کچھ ثواب ملتا ہے لیکن ہم پر بہائے گئے آنسو کا بے حساب ثواب ملے گا۔�(بعض روایات میں اعمال کا ثواب معین بیان ہوا ہے لیکن امام حسینؑ اور ان کے باوفا اصحاب کے غم میں آنسو بہانا بے حد ثواب رکھتا ہے)۔ ��کوثر اور اشک (٣١)�امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ہم پر رونے والی آنکھ کا اجر کوثر سے سیراب ہونا ہے۔�(ہمیں یہ بھی فخر ہے کہ مولا علی کے ہاتھوں حوض کوثر سے سیراب ہوں گے، باپ ساقی کوثر ہیں تو بیٹے جنت کے سردار، ماں جنت کی عورتوں کی سردار اور نانا تمام انبیاء کے سردار)۔ (٣٢)�امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :اے زرارہ ! آسمان نےچالیس دن تک امام حسینؑ کے غم میں گریہ کیا ہے۔�(امام جعفر صادقؑ فرمارہے ہیں کہ امام حسینؑ کے غم میں نہ صرف انسان روئے بلکہ دوسری مخلوق نے بھی گریہ کیا۔ آسمان نے امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کے غم میں چالیس دن تک گریہ کیا)۔ ��گریہ مطلوب (٣٣)� امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: مظلومیت امام حسینؑ کے علاوہ غیر کے لئے گریہ کرنا مکروہ ہے۔� (یعنی دنیا کی کسی چیز کے لئے یا کسی عزیز کےمرجانےپر ان کے لئے آہ وبکا اور رونا مکروہ ہے صرف امام حسینؑ کا غم ایسا غم ہے کہ جس پر رونے سے بہت اجر ملتا ہے۔ غم حسینؑ انبیاء کی ��پیغمبر اکرمۖ کا شہیدوں پر گریہ (٣٤)�امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب جعفربن ابی طالبؑ و زید بن حارثؒ کی شہادت کی خبر رسول خدا ۖ کو ملی تو اس کے بعد جب آپۖ گھر میں داخل ہوئے، گریہ کیا اور فرمایا: یہ دونوں شہید مجھ سے باتیں کرتے تھے اور میرے مونس تھے، لیکن دونوں دنیا سے چلے گئے ۔� (رونا فطری عمل ہے، خود رسول خدا ۖ جناب زید بن حارثؒ اور جعفر بن ابی طالبؑ پر روئے اور انہیں بہترین کلمات سے یاد کیا)۔ �� غمگین سانس پر تسبیح کا ثواب (٣٥)�امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ہماری مظلمومیت پر غمگین سانس لینا تسبیح شمار ہوتا ہے اور یہ غم عبادت ہے، ہمارا راز چھپانا جہاد ہے، اسکے بعد امام صادق علیہ السلام مزید فرماتے ہیں، یہ حدیث سونے سے لکھنے کے قابل ہے۔� (یعنی اہل بیت کے غم میں آہ بھرنا تسبیح اور ذکر شمار ہوتا ہے)۔ �سوگوار فرشتے (٣٦)�امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: چار ہزار غبار آلود فرشتے امام حسینؑ کی قبر کے قریب قیامت تک آپ پر روئیں گے۔�(امام حسینؑ کے غم میں مومنین قیامت تک روئیں گے بلکہ ہر حق و باطل میں تمیز رکھنے والا ہمیشہ حق کی پیروی کرے گا)۔ �� امام حسینؑ علیہ السلام پر گریہ (٣٧)�امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اے فرزند شبیب! اگر گریہ کرنا چاہتے ہو تو امام حسینؑ پرگریہ کرو کیونکہ انھیں جانور کی طرح ذبح کیا گیا تھا۔�(آج دنیا کے کونے کونے میں مجالس حسینؑ برپا ہو رہی ہیں یہ ایک آفاقی معجزہ ہے، جس طرح قرآن کی حفاظت خود خدا نے کی تاکہ اس میں کوئی تحریف نہ کرسکے اسی طرح ذکر اہل بیت بھی قیامت تک ہوتا رہے گا)۔�اس حدیث میں امام حسینؑ کی عبرت ناک شہادت کی طرف اشارہ ہے ۔ آپ کو اتنی بے دردی سے شہید کیا گیا جیسا کہ ایک جانور کو ذبح کیا جاتا ہے ۔ ��ائمہ علیہم السلام کی یاد میں مجلس برپا کرنا (٣٨)�امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص کسی مجلس میں بیٹھ کر ہمارے ذکر کو زندہ کرے تو ایسا دل قیامت میں نہیں مرے گا جس دن تمام دل مردہ ہوں گے۔ ��امام حسینؑ پر رونے کا ثواب (٣٩)�امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: گریہ کرنے والوں کو حسینؑ جیسی شخصیت پر گریہ کرنا چاہیے کیونکہ آپ پر رونے سے بڑے گناہ معاف ہوتے ہیں۔�( اس حدیث میں بھی امام حسینؑ پر رونے کی فضیلت بتائی گئی ہے امامؑ فرماتے ہیں: گریہ کرنا ہو تو صرف حسینؑ بن علی پر گریہ کرو کیونکہ اس سے انسان کے گناہان کبیرہ معاف ہوتے ہیں)۔ ��آنسو باعث مغفرت (٤٠)�امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اے فرزند شبیب ! اگر تم امام حسینؑ پر اتنا گریہ کرو کہ آنسو تیرے رخسار پر جاری ہو جائیں تو اس کے بدلے خدا وند عالم تمھارے گناہ معاف کردے گا چاہے وہ گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے، کم ہوں یا زیادہ۔ ��اہل بیتؑ سے ہمدلی (٤١)� امام رضا علیہ السلام نے ریان بن شبیب سے فرمایا: اگر تم چاہتے ہوجنت میں ہمارے ساتھ درجہ پاکر خوشحال رہو تو ہمارے غم پر غمگین رہو اور ہماری خوشی پر خوش رہو۔�(عملی طور پر کسی امام معصوم کی وفات پر غم منائو اور ولادت پر خوشی کا اظہار کرو ۔ بنوامیہ نے اپنے دور میں عاشورا کے دن عید منائی تاکہ لوگ آہستہ آہستہ حسینؑ اور مظلومیت حسینؑ کو بھول جائیں لیکن اہل بیت کے ماننے والے ہر دور میں رہے ہیں اور انہوں نے حسینؑیت کو زندہ رکھاہے)۔ �� ماخذ:� التماس دعا: سید منتصر باقر [ دوشنبه دهم مرداد ۱۴۰۱ ] [ 12:23 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
|
||
| [قالب وبلاگ : تمزها] [Weblog Themes By : themzha.com] | ||