Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ 
پيوندهای روزانه

شهادت امام علی


19 و 20 رمضان

فزت برب الکعبہ "" یہ وہ جملہ جو میرے مولا کے لب مبارک پر اس وقت جاری ھوا جب عبدالرحمن ابن ملجم لعنتی نے آپؑ کے سر اقدس پر ضرب لگائی ، اس ایک جملے میں مولا نے حقائق کائنات ، اپنی ولایت او حقیقت توحید کو سمو دیا ہے ، جس نے اس جملے کو سمجھ لیا وہ کبھی بھی تفہیم توحید میں دھوکا نہیں کھائے گا تاریخ میں علی(ع) وہ واحد ہستی ھیں جنکی زبان مبارک سے یہ جملہ صادر ہوا ، غور کیجے! آپ(ع) نے فرمایا : رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ، تو وہ کون سی کامیابی تھی جو اس وقت انہیں ملی ? کیا اس سے قبل معاذ اللہ ناکام تھے ؟
مولا علی(ع) کو توحید خدا اور اپنی عبدیت کو عملی طور پر ثابت کرنا تھا اور عبدیت اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتی جب تک اپنے عجز کا اظہار نہ کیا جائے کیونکہ قدرت اور عجز ایک دوسرے کی ضد ہیں اگر قدرت ثابت کی جائے تو عجز نہیں ہوتا .... لیکن 19رمضان مسجد کوفہ میں ہونے والے واقعے کو تاریخ نے اس طرح اپنے سینے میں محفوظ کرلیا کہ جب علی(ع) کے سر اقدس پہ ضرب لگی تو وہ کس کو سجدہ کر رہے تھے اور اب اس بات کا انکار کوئی کر نہیں سکتا - آپ نے اپنی عبدیت ثابت کر دی پس یہی مولاؑ کی کامیابی تھی کہ انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا بحوالہ : کشف الولایہ ص2120

امامؑ کو جب ضربت لگی تو : بسم اللّه وبااللّه وعلی ملة رسول اللّه۔ اور فرمایا: فزت برب الکعبه۔ لوگ آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور فریاد بلند کرنے لگے مگر امام علیہ السلام آیہ شریفہ: منها خلقناکم و فیهانعیدکم ومنها نخرجکم تارةً اخری (سورہ طہٰ آیت55۔) کی تلاوت فرمانے لگے اسی وقت ملائکہ کے اندر ایک ہل چل مچی اور جبرائیل امین نے آواز دی :
تهدّمت والله ارکان الهدیٰ وانطمست والله نجوم السّماء واعلام التّقی وانفصمت والله العروۃ الوثقی قتل ابن عم محمد المصطفی ، قتل الوصی المجتبی ، قتل علی المرتضی ، قتل والله سیّد الاوصیاء ، قتله اشقی الاشقیائ۔

خدا کی قسم آج ہدایت کے ارکان گر گئے ۔ آسمان کے ستاروں میں سیاہی چھا گئی ، تقوی کی نشانیاں ختم ہو گئی اور ہدایت کی مضبوط رسی آج ٹوٹ گئی ۔ پیغمبر اکرم ؐ کا چچا زاد بھائی مارا گیا، مجتبی کا وصی آج شہید کر دیا گیا، علی مرتضی آج مارے گئے ،اوصیاء کے سید اور امیر مارے گئے۔اس کو اشقیاء میں بھی سب سے زیادہ شقی نے مار دیا۔
نماز سے فارغ ہو کر حضرت علی ع کو محراب سے صحن مسجد میں لایا گیا - امام حسنؑ نے قاتل کے بارے میں پوچھا تو حضرتؑ نے ابن ملجم لعین کا بتایا - اور فرمایا کہ ابھی لوگ اسے اس دروازے سے اندر لائیں گے- ابن ملجم وار کر کے مسجد سے فرار ہو گیا تھا - کچھ ہی دیر میں ابن ملجم کو گرفتار کر کے باب کندہ میں سے مسجد لایا گیا - امام حسنؑ نے اس سے پوچھا ، اے بدبخت و لعین تو نے امیر المومنینؑ کو قتل کر دیا ہے ، کیا یہ ان احسانات کا بدلہ ہے جو امیرالمومنینؑ نے تجھ پر ہمیشہ کیے - ابن ملجم سر جھکا کر خاموش کھڑا رہا - امیرالمومنینؑ نے آنکھیں کھولیں اور ابن ملجم سے فرمایا ،

''اے ابن ملجم کیا میں تیرا اچھا امام نہ تھا - اور کیا میرے احسانات بھلا دے جانے کے قابل تھے''
اس پر ابن ملجم نے کہا ، ''کیا آپ اسے چھڑائیں گے جو دوزخ کا سامان کر چکا ہو '' پھر حضرتؑ نے اپنا رخ امام حسنؑ کی طرف کیا اور فرمایا !

اے فرزند اگر میں بچ گیا تو مجھے اختیار ہو گا کہ اسے سزا دوں یا معاف کر دوں - اور اگر اس ضربت کے نتیجے میں چل بسا تو تم اسے قصاص میں قتل کر دینا اور اس کی ایک ضرب کے بدلے میں ایک ہی ضرب لگانا - اور قتل کے بعد اس کے ہاتھ پیر مت کاٹنا - کیوں کہ میں نے رسول الله کو فرماتے سنا ہے کہ ''خبردار کسی کو مثلہ (ہاتھ پیر کاٹنا) مت کرنا اگرچہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو'' - اور اس کے ایام اسیری میں جو کچھ تم خود کھانا اسے بھی وہی کھانے کے لئے دینا اور جو خود پینا اسے بھی وہی پینے کے لئے دینا- اب لوگوں نے حضرت علی ع کو ہاتھوں پر اٹھایا اور گھر کی طرف لے گئے - - اقتباس : سیرت امیرالمومنین (ع) ، مفتی جعفر حسین

- شیخ مفید (رح) اور شیخ طوسی (رح) حضرت اصبغ بن نباتہ (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ جب امیرالمؤمنین کو ضرب لگی اور آپ کو گھر لے جایا گیا تو میں اور حارث ہمدانی اور سوید بن غفلہ لوگوں کے ایک گروہ کے ساتھ امامؑ کے گھر کے باہر جمع ہو گئے جب آپ ع کے گھر سے آہ و بکا اور رونے کی صدا بلند ہوئیں تو ہم بھی رونے لگے اچانک امام حسن علیہ السلام باہر تشرہف لائے اور کہا امامؑ کا فرمان ہے کہ آپ سب اپنے اپنے گھر چلے جائیں، سب لوگ چلے گئے لیکن میں (اصبغ بن نباتہ) رکا رہا اور جب گھر سے فریاد بلند ہوئی تو میں بھی رونے لگا امام حسن علیہ السلام پھر باہر آئے اور مجھے کہا کہ میں نے آپ کو گھر جانے کا کہا تھا ! میں نے کہا خدا کی قسم میرا نفس ساتھ نہیں دے رہا اور پیروں میں چلنے کی طاقت نہیں جب تک امیرالمؤمنینؑ کو نہ دیکھ لوں کہیں نہیں جاؤں گا اور پھر بہت رویا امام حسنؑ علیہ السلام گھر گئے اور کچھ دیر میں باہر تشریف لائے اور مجھے گھر کے اندر لے گئے،جب میں اندر پہنچا تو دیکھا امیرالمؤمنین کو تکیوں کے سہارے بٹھایا گیا ہے اور زرد رنگ کی پٹی آپ کی سر پر بندھی ہے، خون زیادہ بہ جانے کی وجہ سے آپ کے چہرے کا رنگ اتنا زرد پڑ گیا تھا کہ میں سمجھ نہ پایا کہ چہرا زیادہ زرد ہے کہ وہ پٹی جب میں نے امیرالمؤمنین کی یہ حالت دیکھی تو جا کر ان کی قدموں میں گر گیا اور آپؑ کے قدموں کو چومنے لگا، امامؑ نے فرمایا اصبغ نہ رو کیوں کہ جنت کا راستہ میرے سامنے ہے، میں نے عرض کی ، میں آپ پر قربان مجھے پتا ہے جنت آپ کی مشتاق ہے میں اپنی حالت اور آپ کی جدائی میں رو رہا ہوں-

اب ہمارا پرسان حال کون ہو گا ، یتیموں اور بیواؤں کی کون دستگیری کرے گا - اصبغ نے یہ کہا اور حضرت کے پاس سے اٹھ گئے - حضرت پر نقاہت طاری ہو گئی اور غشی کے دورے پڑنے لگے- کبھی ہوش میں آجاتے اور کبھی بیہوش ہو جاتے - امام حسنؑ نے دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا جو حضرت علی ع نے تھوڑا سا نوش فرمایا - پھر امام حسنؑ کو حکم دیا کہ ابن ملجم کو بھی دودھ کا شربت دیا جائے واہ میرے مولاؑ آپ کی سخاوت 😭😭😭
روایات و علماء سے ذکر ہے زخمی حالت میں مولا علی ؑ کو گھر میں لایا گیا تو آپ کے ہی حکم پر اس جگہ بستر لگا کے دیا گیا جہاں ہمیشہ آپ گھر میں نماز ادا کرتے تھے امام حسن ؑ بابا کا سر گود میں رکھے بیٹھے رو رہے تھے کہ گرم آنسو مولاؑ کے چہرے پر پڑھے تو آنکھیں کھولی اور دیکھا کہ بیٹا حسن مسلسل رو رہے ہیں جب امام حسین ع پر نظر پڑی تو ان کا صبر بھی جواب دے رہا تھا لیکن میرے زخمی امامؑ نے یہ کہ کر صبر کی تلقین کی دیکھو میں خود کو کن کن ہستیوں کے درمیان دیکھ رہا ہوں لیکن پھر جب اپنے زخمی بابا کے پاس بیٹیاں آئیں تو خدا جانے کیا منظر ہو گا اتنا ہی لکھ سکتا کہ کچھ لمحے پہلے حسن و حسینؑ کے رونے پر صبر کی تلقین کرنے والے امام ع زینب و کلثوم کے رونے پرضبط نہ کر سکے اور خود بھی آواز کے ساتھ رونے لگے

شیخ مفید و دیگر علماء نے روایت کی ہے کہ جب ابن ملجم کو قید کرلیا گیا تو جناب ام کلثوم سلام اللہ علیہا نے اس سے پوچھا اے خدا کے دشمن تو نے امیرالمؤمنینؑ کو قتل کردیا وہ ملعون کہنے لگا میں نے امیرالمؤمنینؑ کو نہیں تمہارے والد کو قتل کیا ہے، جناب ام کلثوم سلام اللہ علیہا نے فرمایا مجھے امید ہے امامؑ اس ضرب سے شفایاب ہو جائیں گے اور اللہ دنیا و آخرت میں تم پر عذاب نازل کریگا اس پر اس لعنتی نے جواب دیا کہ یہ تلوار میں نے ہزار درہم میں خریدی ہے اور ہزار درہم مزید خرچ کر کے اس کو زہر آلود کروایا ہے اور اگر اس کی ضرب تمام مخلوق کو لگائی جائے تو اس کے زہر سے سب ہلاک ہو جائیں-

ابوالفرج نقل کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین علیہ السلام کے لیے کوفہ کے ساری طبیب و حکیموں کو لایا گیا ان سب میں بڑا جراح اثیر بن عمرو سکونی تھا اس نے زخم کو دیکھا اور بکرے کی ایک تازہ اور گرم میگہ والی ہڈی منگوائی جب ہڈی آگئی تو اس کی ایک رگ باہر نکالی اور اس کو زخم کے شگاف میں رکھا اور پھونک ماری کہ وہ پھونک زخم کی گھرائی تک پہنچ گئی کچھ دیر بعد جب اس نے دیکھا تو مولاؑ کے مغز کی سفیدی اس میں ظاہر ہونے لگی بس پھر اس نے مولا علیہ السلام سے عرض کیا کہ اب آپ وصیت کریں خدا کے دشمن کی ضربت نے اپنا کام کر دیا ہے زہر مغز تک پہنچ چکا ہے اور معاملہ تدبیر سے نکل چکا ہے.

آہ
سورہ عنکبوت کی پہلی دو آیات کے نزول پر رسول اکرم ص کی خبر کا وقت آ گیا

أشقی الأولین عاقر الناقة وأشقی الآخرین الذی یطعنک یا علی، و أشاره الی حیث یطعن
والا رسول اکرم ص کا فرمان سچ ہو گیا

اللهم العن قتلته امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب علیه السلام

اس کے بعد ایک عجیب سا سماں بن گیا جس کے بیان کے لیے الفاظ سے قاصر ہوں پھر مولا امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام سب کی الگ الگ وصتیں فرمائی


لعین شقی ابن ملجم کی کاری ضربت کے بعد جب حکماء کی علاج سے افادیت نہ ملنے پر وصیت کا مشورہ دیا گیا تو مولا ؑ کی وصیت پیش خدمت ہے
لیکن شاید اکثر لوگوں کے لیے یہ قسط دلچسپ نہ ہو کیونکہ اس میں نہ مصائب ہیں اور نہ واقعات
لیکن ایک گزارش کہ کوئی عام انسان بھی جب موت کو یقینی پا کر وصیت کرتا تو اس میں نہ ریاکاری ہوتی نہ جھوٹ اور خوف خدا کے ساتھ خلوص اور زندگی کا تجربہ ہوتا اور قیمتی ترین باتیں کرتا تو سوچیے جو صادقین کے جد ہیں جو حکمت و دانائی کے مرکز ہیں جن کی مسجد سے لیکر سیاست تک کی زندگی نمونہ کامل ہے اور جو علم کا دروازہ ہیں تو ان کی وصیت کیسی ہو گی ہو سکے تو اس وصیت کو رک رک کر اور بار بار مطالعہ کریں
محمد بن حنفیہ کہتےہیں
میرے والدنے فرمایا:
مجھے میری اس جگہ جہاں میں ہمیشہ نماز پڑھتا ہوں منتقل کرو ۔ ہم نے آپ ؑ کو اس جگہ منتقل فرمایا۔ امام حسین علیہ السلام نے روتے ہوئے فرمایا:
بابا ہمارے لئے آپ کے بعد کون ہے ؟ آج ایسا ہی دن جس طرح ہم نے اپنے جد بزرگوار کو کھویا تھا؟ امام علی ؑ نے امام حسین ؑ کو صبر کی تلقین فرمائی ۔
گھر کے باہر سے رونے کی آوازیں آرہی تھی اور امام علی علیہ السلام کی آنکھوں سے اشک جاری تھے امام حسن و حسین علیہما السلام کو سینے سے لگایا اور اپنی اولاد کی طرف نگاہیں دوڑائیں اور اس کے بعد بے ہوش ہوگئے ۔ اور جب ہوش میں آیا تو فرمایا: رسول خدا کو بھی ایسی حالت طاری ہوئی تھی کیونکہ ان کو بھی مسموم کیا گیا تھا ۔ امام حسین علیہ السلام نے دودھ کا پیالہ تھمایا تھوڑا سا نوش فرمایا اور اس کے بعد فرمایا: باقی دودھ اسیر کے لئے لے جاؤ۔
محمد ابن حنفیہ ادامہ دیتے ہیں کہ : بیس رمضان کی رات کو اپنے والد کے پاس تھا جبکہ زہر آپؑ کے سرمبارک سے لیکر پیروں تک پھیل گیا تھا اور آپؑ نے اس رات کی نماز بیٹھ کر پڑھی اور ہم لوگوں کو کچھ مسائل کی وصیت فرمائی اور ہم کو صبر اور برد باری کی تلقین فرمائی یہاں تک کہ صبح ہوگئی ۔ (بحار الانوار ج 42 ص 288 قصہ کوفہ ص 464)

حکیم اثیر بن عمرو سکونی نے کہا تھا آپؑ اپنی وصیت کرلیں

امیرالمؤمنین علیہ السلام کی وصیتیں

حضرت امام علی علیہ السلام جس وقت مجروح ہوئے اسی وقت سے لیکر شہادت تک مختلف وصیتیں فرماتے رہے ۔ جس میں امام ؑ نے اپنے عقائد بیان فرمائے ، اپنے قاتل کو کس طرح مجازات کی جائے اس کے بارے میں وصیت فرمائی ، اپنے بعد کے امام کے لئے وصیت فرمائی ، اپنے کفن ،دفن اور دیگرامور کے لئے وصیتیں فرمائی کہ ہم یہاں پر بطور خلاصہ تین صورتوں میں پیش کررہے ہیں۔

1 مسعودی لکھتا ہے : جب حضرت امام علی علیہ السلام نے دیکھا کہ آپ کی بیٹی ام کلثوم س ع بہت زیادہ رو رہی ہے تو اس کو دلداری دی اور فرمایا: اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ آسمان کے فرشتے اور خدا کے پیغمبر ان صفوں میں میرے استقبال کے لئے تیار ہوجائیں گے ۔اورمجھے دوسری دنیا میں منتقل کرنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اور پیغمبر اکرم ؐ فرما رہے ہیں :

ہماری طرف آجاؤ یہ جگہ اس جگہ سے تمہارے لئے بہتر ہے ۔

اس کے بعد کمرے میں حاضرین سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : میں اپنے اہل بیت کے ساتھ کچھ وصیتیں کرنا چاہتا ہوں کمرے میں موجود سب افراد چلے گئے فقط آپ کے بارہ بیٹے اور کچھ مخصوص شیعہ رک گئے ۔ امام ؑ نے حمد و ثنا ء الہی کے بعد فرمایا:

خداوند تبارک و تعالی سے محبت کرو حسن ؑو حسینؑ کی اطاعت کرو اور ان کے بارے میں سفارش کرتا ہوں ۔ ''فاسمعوا لہما واطیعوا امرہما''ان دونوں کی باتوں کو سنو اور ان کے احکامات کی تعمیل کرو۔اس کے بعد امام حسن علیہ السلام کو اپنا وصی مقرر فرمایا اور اسماء الھی کی تعلیم دی اور نور ، حکمت اور مواریث انبیاء کو امام حسن علیہ السلام کی تحویل میں دیا اور فرمایا:

اذا أنا متُّ فغسِّلنی وکفِّنی وحنِّطنی وأدخلنی قبری (اثبات الوصیۃ ص 155۔)جب میں دنیاسے چلاجاؤ ں تو مجھے غسل دو ، کفن دو، اور حنوط کرو اور قبر کے اندر رکھو اور اسکے بعد قبر کو بند کرواور جب قبر کامل ہوجائے تو سب سے پہلے رکھی گئی اینٹ کو اٹھا کر دیکھنا مگر مجھے نہیں پاؤ گے۔

2۔حضرت امام علی علیہ السلام کی وصیّتوں کی دوسری صورت میں امام ؑ نے غسل و کفن اور نماز جنازہ اور دفن کے احکام صادر فرمائے ہیں۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ذکرہونے والی وصیت کے ادامہ میں فرماتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے امام حسن ؑ وحسین ؑ سے فرمایا: و احملانی باللیل سرّاً واحملایابنتی مؤخّرالسریر واتّعاہ مقدّمه (کافی ج 1 ص457 فرحۃ الغری ص 78بحارالانوارج 42 ص 219۔)اور مجھے رات کے وقت غسل دو اور حنوط کرو اور میری تابوت کے پچھلے حصہ کو اٹھاؤ آگے کا حصہ خود بخود حرکت کرے گا تم لوگ اس کے پیچھے حرکت کرو اور جس جگہ زمین پر رکھ دیا جائے وہاں ایک سفید پتھر ملے گا اس جگہ کو کھود لو ایک تیار قبر ملے گی یہ وہ قبر ہے جو حضرت نوح پیغمبر ؐنے میرے لئے تیار کی ہے ۔

تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب حضرت امام علی علیہ السلام کو غسل دینے کے لئے برہنہ کیا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر ہزاروں زخم دیکھے گئے جو آپؑ نے راہ اسلام میں جہاد فی سبیل اللہ کے دوران متحمل ہوئے تھے (علی من المہد الی اللحدص344۔)

3- وصیت کا تیسرا حصہ اخلاق ، حقوق مسلمین ، وظائف ، فرائض اور دیگر دوسرے امور اسلامی پر مشتمل تھا، جو کہ کافی مفصل امورات اور دقت طلب ہے (صاحبان تحقیق نہج البلاغہ صبحی صالح ص 421خط نمبر47،کافی ج7 ص 52 تہذیب الاحکام ج 9 ص 208 پر رجوع کریں ۔)ہم اختصار کے طور پر اس میں سے سب سے مختصر وصیت کو آپ کی خدمت میں عرض کررہے ہیں۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :لمّا احتضر امیرالمؤمنین علیہ السلام جمعبنیه حسناً وحسیناً ، وابن الحنفیّه ، والأصاغر من ولده ، فوصّاهم ، وکان فی آخروصیّته :یا بُنیَّ عاشرواالناس عشرۃً ، ان غبْتُمْ حسنّوا الیکم ، وان فقدتم بکواعلیکم ۔یابنیَّ انّ القلوب جنودٌ مجنَّدۃٌ ، تتلاحظُ بالمودۃ وتتناجی بها ، وکذلک هی فی البغض ، فاذا احببتم الرَّجل من غیر خیرٍ سبق منه الیکم فارجوه واذا ابغضتم الرجَّل من غیر سوءٍ سبق منه الیکم فاحذروه(امالی شیخ طوسی ص27، بحار الانوارج 72 ص278۔)
جب حضرت امام علی علیہ السلام کو حالت احتضار ہونے لگی تو آپ ؑ نے حسن ؑ وحسین ؑ محمد حنفیہ اور دوسرے تمام بیٹوں کو جمع فرمایا حتی کہ چھوٹے بچوں کو بھی اور اس کے بعد وصیت فرمائی اور وصیت کے اواخر میں فرمایا: اے میرے بیٹو لوگوں کے ساتھ اس طرح معاشرت اور زندگی کرو کہ جب تم غائب ہو جاؤ تو لوگ تمہاری زیارت کے مشتاق ہو جائیں ، اگر دنیا سے گزرجاؤ تو تمہارے مرجانے پر روئیں۔
اے میرے بیٹو: انسانوں کے دل اس منظم اور مرتب فوج کے مانند ہیں جو اپنی مودت اور محبت کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنی طرف جذب کرکے ایک دوسرے کی ترقی اور نجات کے باعث بنتے ہیں ۔یہی حالت نفرت اور بغض میں بھی ہے ۔

اگر کسی سے پہلے کی شناخت اور پہچان کے بغیر محبت ہو جائے تو آئندہ کی دوستی پر امید رکھو اور اگرکسی سے پہلے کی پہچان کے بغیر نفرت ہو جائے تو اس سے احتیاط کرو ۔

محمدبن حنفیہ کہتے ہیں:جب اکیس رمضان کی رات آن پہنچی رات بھی بہت تاریک تھی اور آج دوسری رات تھی کہ ہم سب اپنے والد بذرگوار کے اطراف میں جمع تھے ۔امام علیہ السلام نے سب اہل خانہ کو جمع فرمایااور سب سے وداع کی ۔ اور فرمایا: خدا اور احکام الہی پر عمل کرو اور رسول خدا کی وصایا پر عمل کرو اور امام حسن ؑ و حسین ؑ سے وصیتیں کی۔ (بحار الانوارج 42ص250)

تم سب کا حافظ اور نگهبان ہے اور میرے لئے بھی کافی ہے ۔اپنے ایمان کی حفاظت کرو اور وظائف کی
تلوار کے زہر نے سارے بدن پر اثر کیا تھاہمارے چہرے اور آنکھیں آپ ؑ کی وضعیت کو دیکھ کر لال ہو رہی تھی ۔ امام نے کچھ لوگوں سے ملاقات کی ان کو نصیحتیں کی ،کھانے پینے سے انکار کیا۔ آپ کے لب مبارک ذکر خدا میں مشغول تھے اور پیشانی بار بار پسینے سے تر ہوجاتی تھی جس کو ہاتھ کے ذریعہ صاف کرتے تھے ۔میں نے کہا :

والد بذرگوار میں دیکھ رہاہوں پیشانی کے پسینہ کو ہاتھ سے صاف کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: فرزندم : تیرے جد رسول خداص سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

انّ المؤمنُ اذا نزل به الموت ودنت وفاته ، عرق جنینُه و صار کاللولؤالرّطب ، وسکن أنینهم مؤمن کے اوپر جب موت وارد ہوتی ہے اور اس کی موت کا وقت نزدیک ہوجاتا ہے تو اس کی پیشانی پر پسینہ آتاہے اور مروارید کے دانوں کی طرح ترو تازہ ہوجاتے ہیں اور اس کے اندرموجود فریاد اور درد میں سکون آجاتا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے شب جمعہ 21 رمضان المبارک 40 ہجری قمری کو شربت شہادت نوش فرمایا
آپؑ کی شہادت سے کوفہ غرق ماتم ہوا ،کوچہ وبازار سے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں لوگ گروہ گروہ حضرت کے گھر کی طرف آنے لگے اور بلند بلند گریہ و زاری کرتے تھے اور اس طرح شہر میں ماتم ہونے لگا جس طرح پیغمبر اکرم ؐ کی وفات پر صف ماتم بچھ گیا تھا ۔ جب رات کی تاریکی چھا گئی آسمان کے افق پر تبدیلی آنے لگی زمین میں لرزہ طاری ہوا اور صبح تک فرشتوں کی تسبیح کا زمزمہ سنائی دیتا تھا یہاں تک کہ طلوع فجر ہوئی (بحار ج42 ص 293)
آپ كا جنازہ كوفے جيسے بڑے شهر ميں موجود هے خارجيوں كے علاوہ شهر كے جتنے بھي لوگ تھے سب كي خواهش تھي كہ وہ حضرت علي عليہ السلام كے جنازہ ميں شركت كريں اور وہ علي عليہ السلام كے غم ميں گريہ و زاری كر رھے تھے۔ اكيسويں رمضان كي رات کو امام حسن (ع) اور امام حسين (ع)، محمد بن حنفيہ (ع) جناب ابوالفضل عباس (ع) اور چند مومنين شايد چھ سات آدمي تھے، انھوں نے تاريكي شب ميں مولاؑ كو غسل و كفن ديا۔

امام علی عليہ السلام كي معين كردہ جگہ کوفہ کے نزدیک غری (غریین)کے قصبےميں رات كي تاريكي و تنہائي اور خاموشي سے آپ كو آهوں اور سسكيوں اور آنسوؤں كے ساتھ دفن كرديا گيا۔ اس جگہ پر كچھ انبياء كرام بھي مدفون تھے۔ جسے آج کل نجف اشرف کہا جاتا ھے ایک اور روایت میں ملتا ھے تابوت کو حسنین کریمین چند لوگوں کے ساتھ نجف کی مقدس زمین پر اس جگہ تک لے گئے جہاں مولاؑ نے بتا رکھا تھا وهاں پر لے گئے تو ایک سفید پتھر نمایاں ہوا ، امام حسنؑ نے سات تکبیروں کے ساتھ نماز پڑھی پھر او ر پھر فرمایا''اماانّھا لاٰ تُکَبّرُ علیٰ احدٍ بعدہ'' یعنی جان لو کہ علی علیہ السلام کے جنازہ کے بعد کسی بھی شخص کے جنازے پر سات تکبیریں نہیں کہی جائیں گی اس کے بعد اس جگہ کو کھودا ، ایک قبر ظاہر ہوئی اور وہاں پر ایک لوح (تختی) ملی جس پر لکھا ہوا تھا اس قبر کو پیغمبر نوح (علیہ السلام) نے حضرت علی علیہ السلام کیلئے تیار کیا تھا، حضرت کو صبح کے نزدیک وہاں پر دفن کردیا ( حوادث الایام، ص ۲۱۳۔)

جنازہ مخفی رکھا گیا

جب دوسري صبح هوئي تب لوگوں كو علم هوا كہ جناب ابو تراب عليہ السلام دفنائے جا چكے هيں ليكن آپ كي قبر اطهر كے بارے ميں كسي كو علم نہ تھا يہاں تک كہ بعض روايات ميں هے كہ حضرت امام حسن عليہ السلام نے ایک جنازہ تشكيل دے كر مدينہ روانہ كرديا تاكہ خوارج اور دشمنان علی عليہ السلام يہ سمجھيں كہ امام ع كو مدينہ ميں لے جا کر دفن كرديا گیا هے۔ اور وہ قبر علي عليہ السلام كی توهين نہ كريں۔ اس زمانے ميں خوارج كا قبضہ تھا۔ حضرت علی عليہ السلام كے فرزندان اور چند خواص كے علاوہ كسي كو خبر تک نہ تھی كہ مولا علی عليہ السلام كي قبر كہاں هے؟ سید ابن طاؤس کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی قبر اقدس کے پوشیدہ رکھنے میں بہت سے فوائد تھے کہ جن کی تفاصیل سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی! کوفہ کا شرف تیری قبر کی بدولت سے ہے … تو حضرت علی(ع) نے فرمایا: اے اللہ کے رسول(ص): کیا میں عراق کے شہر کوفہ میں دفن ہوں گا؟ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہاں تم اس کے پشت میں دفن ہو گے(فرحة الغری ص37/38)

قبر کی بے حرمتی کی کوشش

حجاج بن یوسف جب بنو امیہ کی طرف سے گورنر بنا تو اس نے حضرت علی علیہ السلام کے لاشہ کی بے حرمتی کرنے کے لیے کوفہ، نجف اور اس کے گردو نواح میں موجود تین ہزار قبروں کو کھدوایا لیکن اسے حضرت علی علیہ السلام کی میت نہ ملی (کتاب منتخب التواریخ) انہی حالات کے پیش نظر حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی قبر اقدس کے بارے میں آئمہ اطہار علیہم السلام اور خاص شیعوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔

راز ظاہر ہونا

يہ راز ايک سو سال تک مخفي رها۔ بني اميہ چلے گئے اور بني عباس آگئے۔ اب يہ خطرہ ٹل گيا۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے سب سے پهلے امام علي عليہ السلام كي قبر مبارک کی نشاندہی كى" اور علانيہ طور پر لوگوں كو بتايا كہ ہمارے جد امجد امير المومنين عليہ السلام يہاں پر دفن هيں۔ زيارت عاشورا كا راوی صفوان كہتا هے كہ ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كي خدمت اقدس ميں كوفہ ميں تھا۔ آپ ہميں قبر علی عليہ السلام كے سراہانے لے آئے اور اشارہ كركے فرمايا يہ هے دادا علی عليہ السلام كي قبر اطهر۔ آپ نے هميں حكم ديا كہ هم امام علی عليہ السلام كي قبر پر سايہ كا اهتمام كريں۔ بس اسي روز سے والی نجف كي آخري آرام گاہ مشهور هوئی۔ كتنے بڑے دكھ كي بات هے كہ علی عليہ السلام كے دشمن اس قدر كينہ پرور اور كمينہ صفت لوگ تھے كہ ايک صدی تک آپؑ كي قبر غير محفوظ تھی۔

ابن ملجم کا انجام

محمد بن حنفیہ کہتاہے : جب امام حسن علیہ السلام کفن و دفن امام علی علیہ السلام سے فارغ ہوئے، آپؑ چاہتے تھے کہ تین دن بعد ابن ملجم کو سزا دیں مگر امام علی علیہ السلام کی اولاد کے اصرار پر اکیس رمضان کی صبح کو امام حسن علیہ السلام کے حکم سے ابن ملجم کو جیل سے لایا گیا اور امام علی علیہ السلام کی وصیت اور احکام اسلامی پر عمل کرتے ہوئے اس کی گردن پر امام حسن علیہ السلام نے ایک ضربت لگائی اور گردن کاٹ دی ایک قول کے مطابق ام ہیثم ، اسود نخعی کی بیٹی نے ابن ملجم کے جنازہ کو تحویل میں لیا اور اس کو آگ لگا دی اور ایک قول کے مطابق لوگ اس کے مرنے کے بعد اس کی میت کو کوفہ سے باہر لے گئے اور آگ لگا دی۔ ( بحارا لانوار ج ٤٢ ص ٢٩٧ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٦ ص ١٢٥،الارشاد ص ١٨۔)

معاویہ کی خوشی

جب شام میں معاویہ نے امام علیؑ کی شہادت کی خبر سنی تو پہلے خوش و خرم ہوا اور بعد میں سجدہ شکر کیا اور یہ شعر پڑھے: علی نے اپنی جان دے دی اور اس کے بعد علی کے لیے لوٹنا ممکن نہیں، اور میں یہ خبر سن کر بہت زیادہ خوش و خرم ہوں جس طرح کسی کے گھر والے سفر سے لوٹتے ہیں اس طرح، علی کی موت نے میری آنکھوں کو روشنی دی ہے۔

ڈراونا واقعہ

روایت میں ہے داؤود عباسی نے ایک دفعہ اپنے چند با اعتماد غلاموں کو حضرت علی علیہ السلام کی قبر اقدس کے کھودنے کے لیے بھیجا ان غلاموں میں ایک حبشی غلام بھی تھا کہ جو اپنی قوت و طاقت میں کافی مشہور تھا، ان غلاموں نے جب قبر اقدس کو پانچ ہاتھوں کے برابر کھود لیا تو ایک مضبوط پتھر ظاہر ہوا کہ جو کھدائی کے عمل میں رکاوٹ بن گیا اور کوشش کے باوجود اس پتھر کو نہ وہ توڑ سکے اور نہ ہی اپنی جگہ سے ہلا سکے تو اس وقت ان غلاموں نے اس حبشی غلام کو پتھر ہٹانے کے لیے کہا اور جب اس غلام نے دو تین مرتبہ اس پتھر پر ضرت لگائی، تو وہ غلام چیخنا چلانا شروع ہو گیا اور وہاں سے نکلنے کے لیے اپنے ساتھوں سے مدد طلب کرنے لگا، جب اس کو وہاں سے نکالا گیا تو وہ انتہائی خوف زدہ تھا سب نے اس سے چیخنے چلانے اور خوفزدہ ہونے کا سبب پوچھا لیکن اس نے کسی کو بھی اس کے بارے میں نہ بتایا اور پھر اس کے بعد اس کا گوشت اس کے جسم سے کٹ کٹ کر گرنے لگا۔ داؤود عباسی کو جب تمام واقعات سے آگاہ کیا گیا تو اس نے اپنی اس حرکت کو چھپانے کے لیے سب غلاموں سے اس معاملے کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا اور پھر قبر کو از سر نو تعمیر کر کے ایک لکڑی کا صندوق قبر پر بطور نشانِ قبر رکھ دیا۔(فرحة الغری ص61)۔

نجف اشرف میں اماموں کا جانا

چھ اماموں نے نجف اشرف میں امیر المومنین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی ہے: جن میں امام حسین (ع) امام سجاد (ع) امام باقر (ع) امام صادق (ع) امام علی نقی (ع) امام حسن عسکری (ع)شامل هیں قبر امام علی ع سے اختلاف کرنے والوں میں ابن سعد کا اختلاف وہ بھی راوی قیس بن ربیع کی اختلاف کی وجہ اور محمد بن عبید الطنافسی اس کے کردار کی گواہی ہی کافی هے وہ کتنا فحاش اور سفاک تھا جبکہ اس وقت زریت امامؑ سے کافی معتبر لوگ موجود تھے صاحب تاریخ طبری نے بھی اختصار میں لکھتے هوے جو ابہام ڈالا وہ بھی اپنی مثال آپ هیں ابن عبدالبر - ابن العماد اور ابن مسعودی کے آپس کے اختلافات بھی عجیب هیں کہ کوئی فقط کوفہ میں تدفین بتاتا تو کوئی فقط جنازہ مدینہ روانہ کرنے کا بتاتا تو کوئی وادی طی لیکن ان مختلف اقوال کے پیچھے نہ کوئی سند ہے اور نہ ہی کوئی روایت ہے یعقوبی کی تاریخ انہیں کوفہ میں غری نامی مقام میں دفن بتاتی تو کتاب الصحیفہ میں ابی مخنفف الاسود، کندی اور الاجلنح سے روایت ہے کہ آپ مقام رحبہ جو کہ ابواب کندہ کے بعد ہے پر دفن هوے سید ابن طاوئوس نے کتاب الفرحتہ اور ابن عبد ربہ نے اپنی کتاب العقدہ بھی یہ ہی مقام بتاتے هیں ابن کثیر اور خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد کی مباحثے بھی ایسے ہی آپس میں ملتے جلتے هیں لیکن ابو الفرج کا ہر بات ادھوری چھوڑ دینا سمجھ سے بلاتر هے ب۔۔

[ چهارشنبه سی ام فروردین ۱۴۰۲ ] [ 1:54 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
.: Weblog Themes By themzha :.

درباره وبلاگ

ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر
امکانات وب