|
Voice of Islam
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلامُ
| ||
شهادت امام علی
فزت برب الکعبہ "" یہ وہ جملہ جو میرے مولا کے لب مبارک پر اس وقت جاری ھوا جب عبدالرحمن ابن ملجم لعنتی نے آپؑ کے سر اقدس پر ضرب لگائی ، اس ایک جملے میں مولا نے حقائق کائنات ، اپنی ولایت او حقیقت توحید کو سمو دیا ہے ، جس نے اس جملے کو سمجھ لیا وہ کبھی بھی تفہیم توحید میں دھوکا نہیں کھائے گا تاریخ میں علی(ع) وہ واحد ہستی ھیں جنکی زبان مبارک سے یہ جملہ صادر ہوا ، غور کیجے! آپ(ع) نے فرمایا : رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ، تو وہ کون سی کامیابی تھی جو اس وقت انہیں ملی ? کیا اس سے قبل معاذ اللہ ناکام تھے ؟ امامؑ کو جب ضربت لگی تو : بسم اللّه وبااللّه وعلی ملة رسول اللّه۔ اور فرمایا: فزت برب الکعبه۔ لوگ آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور فریاد بلند کرنے لگے مگر امام علیہ السلام آیہ شریفہ: منها خلقناکم و فیهانعیدکم ومنها نخرجکم تارةً اخری (سورہ طہٰ آیت55۔) کی تلاوت فرمانے لگے اسی وقت ملائکہ کے اندر ایک ہل چل مچی اور جبرائیل امین نے آواز دی : خدا کی قسم آج ہدایت کے ارکان گر گئے ۔ آسمان کے ستاروں میں سیاہی چھا گئی ، تقوی کی نشانیاں ختم ہو گئی اور ہدایت کی مضبوط رسی آج ٹوٹ گئی ۔ پیغمبر اکرم ؐ کا چچا زاد بھائی مارا گیا، مجتبی کا وصی آج شہید کر دیا گیا، علی مرتضی آج مارے گئے ،اوصیاء کے سید اور امیر مارے گئے۔اس کو اشقیاء میں بھی سب سے زیادہ شقی نے مار دیا۔ ''اے ابن ملجم کیا میں تیرا اچھا امام نہ تھا - اور کیا میرے احسانات بھلا دے جانے کے قابل تھے'' اے فرزند اگر میں بچ گیا تو مجھے اختیار ہو گا کہ اسے سزا دوں یا معاف کر دوں - اور اگر اس ضربت کے نتیجے میں چل بسا تو تم اسے قصاص میں قتل کر دینا اور اس کی ایک ضرب کے بدلے میں ایک ہی ضرب لگانا - اور قتل کے بعد اس کے ہاتھ پیر مت کاٹنا - کیوں کہ میں نے رسول الله کو فرماتے سنا ہے کہ ''خبردار کسی کو مثلہ (ہاتھ پیر کاٹنا) مت کرنا اگرچہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو'' - اور اس کے ایام اسیری میں جو کچھ تم خود کھانا اسے بھی وہی کھانے کے لئے دینا اور جو خود پینا اسے بھی وہی پینے کے لئے دینا- اب لوگوں نے حضرت علی ع کو ہاتھوں پر اٹھایا اور گھر کی طرف لے گئے - - اقتباس : سیرت امیرالمومنین (ع) ، مفتی جعفر حسین - شیخ مفید (رح) اور شیخ طوسی (رح) حضرت اصبغ بن نباتہ (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ جب امیرالمؤمنین کو ضرب لگی اور آپ کو گھر لے جایا گیا تو میں اور حارث ہمدانی اور سوید بن غفلہ لوگوں کے ایک گروہ کے ساتھ امامؑ کے گھر کے باہر جمع ہو گئے جب آپ ع کے گھر سے آہ و بکا اور رونے کی صدا بلند ہوئیں تو ہم بھی رونے لگے اچانک امام حسن علیہ السلام باہر تشرہف لائے اور کہا امامؑ کا فرمان ہے کہ آپ سب اپنے اپنے گھر چلے جائیں، سب لوگ چلے گئے لیکن میں (اصبغ بن نباتہ) رکا رہا اور جب گھر سے فریاد بلند ہوئی تو میں بھی رونے لگا امام حسن علیہ السلام پھر باہر آئے اور مجھے کہا کہ میں نے آپ کو گھر جانے کا کہا تھا ! میں نے کہا خدا کی قسم میرا نفس ساتھ نہیں دے رہا اور پیروں میں چلنے کی طاقت نہیں جب تک امیرالمؤمنینؑ کو نہ دیکھ لوں کہیں نہیں جاؤں گا اور پھر بہت رویا امام حسنؑ علیہ السلام گھر گئے اور کچھ دیر میں باہر تشریف لائے اور مجھے گھر کے اندر لے گئے،جب میں اندر پہنچا تو دیکھا امیرالمؤمنین کو تکیوں کے سہارے بٹھایا گیا ہے اور زرد رنگ کی پٹی آپ کی سر پر بندھی ہے، خون زیادہ بہ جانے کی وجہ سے آپ کے چہرے کا رنگ اتنا زرد پڑ گیا تھا کہ میں سمجھ نہ پایا کہ چہرا زیادہ زرد ہے کہ وہ پٹی جب میں نے امیرالمؤمنین کی یہ حالت دیکھی تو جا کر ان کی قدموں میں گر گیا اور آپؑ کے قدموں کو چومنے لگا، امامؑ نے فرمایا اصبغ نہ رو کیوں کہ جنت کا راستہ میرے سامنے ہے، میں نے عرض کی ، میں آپ پر قربان مجھے پتا ہے جنت آپ کی مشتاق ہے میں اپنی حالت اور آپ کی جدائی میں رو رہا ہوں- اب ہمارا پرسان حال کون ہو گا ، یتیموں اور بیواؤں کی کون دستگیری کرے گا - اصبغ نے یہ کہا اور حضرت کے پاس سے اٹھ گئے - حضرت پر نقاہت طاری ہو گئی اور غشی کے دورے پڑنے لگے- کبھی ہوش میں آجاتے اور کبھی بیہوش ہو جاتے - امام حسنؑ نے دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا جو حضرت علی ع نے تھوڑا سا نوش فرمایا - پھر امام حسنؑ کو حکم دیا کہ ابن ملجم کو بھی دودھ کا شربت دیا جائے واہ میرے مولاؑ آپ کی سخاوت 😭😭😭 شیخ مفید و دیگر علماء نے روایت کی ہے کہ جب ابن ملجم کو قید کرلیا گیا تو جناب ام کلثوم سلام اللہ علیہا نے اس سے پوچھا اے خدا کے دشمن تو نے امیرالمؤمنینؑ کو قتل کردیا وہ ملعون کہنے لگا میں نے امیرالمؤمنینؑ کو نہیں تمہارے والد کو قتل کیا ہے، جناب ام کلثوم سلام اللہ علیہا نے فرمایا مجھے امید ہے امامؑ اس ضرب سے شفایاب ہو جائیں گے اور اللہ دنیا و آخرت میں تم پر عذاب نازل کریگا اس پر اس لعنتی نے جواب دیا کہ یہ تلوار میں نے ہزار درہم میں خریدی ہے اور ہزار درہم مزید خرچ کر کے اس کو زہر آلود کروایا ہے اور اگر اس کی ضرب تمام مخلوق کو لگائی جائے تو اس کے زہر سے سب ہلاک ہو جائیں- ابوالفرج نقل کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین علیہ السلام کے لیے کوفہ کے ساری طبیب و حکیموں کو لایا گیا ان سب میں بڑا جراح اثیر بن عمرو سکونی تھا اس نے زخم کو دیکھا اور بکرے کی ایک تازہ اور گرم میگہ والی ہڈی منگوائی جب ہڈی آگئی تو اس کی ایک رگ باہر نکالی اور اس کو زخم کے شگاف میں رکھا اور پھونک ماری کہ وہ پھونک زخم کی گھرائی تک پہنچ گئی کچھ دیر بعد جب اس نے دیکھا تو مولاؑ کے مغز کی سفیدی اس میں ظاہر ہونے لگی بس پھر اس نے مولا علیہ السلام سے عرض کیا کہ اب آپ وصیت کریں خدا کے دشمن کی ضربت نے اپنا کام کر دیا ہے زہر مغز تک پہنچ چکا ہے اور معاملہ تدبیر سے نکل چکا ہے. آہ أشقی الأولین عاقر الناقة وأشقی الآخرین الذی یطعنک یا علی، و أشاره الی حیث یطعن اللهم العن قتلته امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب علیه السلام اس کے بعد ایک عجیب سا سماں بن گیا جس کے بیان کے لیے الفاظ سے قاصر ہوں پھر مولا امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام سب کی الگ الگ وصتیں فرمائی
حکیم اثیر بن عمرو سکونی نے کہا تھا آپؑ اپنی وصیت کرلیںامیرالمؤمنین علیہ السلام کی وصیتیںحضرت امام علی علیہ السلام جس وقت مجروح ہوئے اسی وقت سے لیکر شہادت تک مختلف وصیتیں فرماتے رہے ۔ جس میں امام ؑ نے اپنے عقائد بیان فرمائے ، اپنے قاتل کو کس طرح مجازات کی جائے اس کے بارے میں وصیت فرمائی ، اپنے بعد کے امام کے لئے وصیت فرمائی ، اپنے کفن ،دفن اور دیگرامور کے لئے وصیتیں فرمائی کہ ہم یہاں پر بطور خلاصہ تین صورتوں میں پیش کررہے ہیں۔ 1 مسعودی لکھتا ہے : جب حضرت امام علی علیہ السلام نے دیکھا کہ آپ کی بیٹی ام کلثوم س ع بہت زیادہ رو رہی ہے تو اس کو دلداری دی اور فرمایا: اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ آسمان کے فرشتے اور خدا کے پیغمبر ان صفوں میں میرے استقبال کے لئے تیار ہوجائیں گے ۔اورمجھے دوسری دنیا میں منتقل کرنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اور پیغمبر اکرم ؐ فرما رہے ہیں : ہماری طرف آجاؤ یہ جگہ اس جگہ سے تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اس کے بعد کمرے میں حاضرین سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : میں اپنے اہل بیت کے ساتھ کچھ وصیتیں کرنا چاہتا ہوں کمرے میں موجود سب افراد چلے گئے فقط آپ کے بارہ بیٹے اور کچھ مخصوص شیعہ رک گئے ۔ امام ؑ نے حمد و ثنا ء الہی کے بعد فرمایا: خداوند تبارک و تعالی سے محبت کرو حسن ؑو حسینؑ کی اطاعت کرو اور ان کے بارے میں سفارش کرتا ہوں ۔ ''فاسمعوا لہما واطیعوا امرہما''ان دونوں کی باتوں کو سنو اور ان کے احکامات کی تعمیل کرو۔اس کے بعد امام حسن علیہ السلام کو اپنا وصی مقرر فرمایا اور اسماء الھی کی تعلیم دی اور نور ، حکمت اور مواریث انبیاء کو امام حسن علیہ السلام کی تحویل میں دیا اور فرمایا: اذا أنا متُّ فغسِّلنی وکفِّنی وحنِّطنی وأدخلنی قبری (اثبات الوصیۃ ص 155۔)جب میں دنیاسے چلاجاؤ ں تو مجھے غسل دو ، کفن دو، اور حنوط کرو اور قبر کے اندر رکھو اور اسکے بعد قبر کو بند کرواور جب قبر کامل ہوجائے تو سب سے پہلے رکھی گئی اینٹ کو اٹھا کر دیکھنا مگر مجھے نہیں پاؤ گے۔ 2۔حضرت امام علی علیہ السلام کی وصیّتوں کی دوسری صورت میں امام ؑ نے غسل و کفن اور نماز جنازہ اور دفن کے احکام صادر فرمائے ہیں۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ذکرہونے والی وصیت کے ادامہ میں فرماتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے امام حسن ؑ وحسین ؑ سے فرمایا: و احملانی باللیل سرّاً واحملایابنتی مؤخّرالسریر واتّعاہ مقدّمه (کافی ج 1 ص457 فرحۃ الغری ص 78بحارالانوارج 42 ص 219۔)اور مجھے رات کے وقت غسل دو اور حنوط کرو اور میری تابوت کے پچھلے حصہ کو اٹھاؤ آگے کا حصہ خود بخود حرکت کرے گا تم لوگ اس کے پیچھے حرکت کرو اور جس جگہ زمین پر رکھ دیا جائے وہاں ایک سفید پتھر ملے گا اس جگہ کو کھود لو ایک تیار قبر ملے گی یہ وہ قبر ہے جو حضرت نوح پیغمبر ؐنے میرے لئے تیار کی ہے ۔ تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب حضرت امام علی علیہ السلام کو غسل دینے کے لئے برہنہ کیا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر ہزاروں زخم دیکھے گئے جو آپؑ نے راہ اسلام میں جہاد فی سبیل اللہ کے دوران متحمل ہوئے تھے (علی من المہد الی اللحدص344۔) 3- وصیت کا تیسرا حصہ اخلاق ، حقوق مسلمین ، وظائف ، فرائض اور دیگر دوسرے امور اسلامی پر مشتمل تھا، جو کہ کافی مفصل امورات اور دقت طلب ہے (صاحبان تحقیق نہج البلاغہ صبحی صالح ص 421خط نمبر47،کافی ج7 ص 52 تہذیب الاحکام ج 9 ص 208 پر رجوع کریں ۔)ہم اختصار کے طور پر اس میں سے سب سے مختصر وصیت کو آپ کی خدمت میں عرض کررہے ہیں۔ حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :لمّا احتضر امیرالمؤمنین علیہ السلام جمعبنیه حسناً وحسیناً ، وابن الحنفیّه ، والأصاغر من ولده ، فوصّاهم ، وکان فی آخروصیّته :یا بُنیَّ عاشرواالناس عشرۃً ، ان غبْتُمْ حسنّوا الیکم ، وان فقدتم بکواعلیکم ۔یابنیَّ انّ القلوب جنودٌ مجنَّدۃٌ ، تتلاحظُ بالمودۃ وتتناجی بها ، وکذلک هی فی البغض ، فاذا احببتم الرَّجل من غیر خیرٍ سبق منه الیکم فارجوه واذا ابغضتم الرجَّل من غیر سوءٍ سبق منه الیکم فاحذروه(امالی شیخ طوسی ص27، بحار الانوارج 72 ص278۔) اگر کسی سے پہلے کی شناخت اور پہچان کے بغیر محبت ہو جائے تو آئندہ کی دوستی پر امید رکھو اور اگرکسی سے پہلے کی پہچان کے بغیر نفرت ہو جائے تو اس سے احتیاط کرو ۔ محمدبن حنفیہ کہتے ہیں:جب اکیس رمضان کی رات آن پہنچی رات بھی بہت تاریک تھی اور آج دوسری رات تھی کہ ہم سب اپنے والد بذرگوار کے اطراف میں جمع تھے ۔امام علیہ السلام نے سب اہل خانہ کو جمع فرمایااور سب سے وداع کی ۔ اور فرمایا: خدا اور احکام الہی پر عمل کرو اور رسول خدا کی وصایا پر عمل کرو اور امام حسن ؑ و حسین ؑ سے وصیتیں کی۔ (بحار الانوارج 42ص250) تم سب کا حافظ اور نگهبان ہے اور میرے لئے بھی کافی ہے ۔اپنے ایمان کی حفاظت کرو اور وظائف کی والد بذرگوار میں دیکھ رہاہوں پیشانی کے پسینہ کو ہاتھ سے صاف کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: فرزندم : تیرے جد رسول خداص سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: انّ المؤمنُ اذا نزل به الموت ودنت وفاته ، عرق جنینُه و صار کاللولؤالرّطب ، وسکن أنینهم مؤمن کے اوپر جب موت وارد ہوتی ہے اور اس کی موت کا وقت نزدیک ہوجاتا ہے تو اس کی پیشانی پر پسینہ آتاہے اور مروارید کے دانوں کی طرح ترو تازہ ہوجاتے ہیں اور اس کے اندرموجود فریاد اور درد میں سکون آجاتا ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام نے شب جمعہ 21 رمضان المبارک 40 ہجری قمری کو شربت شہادت نوش فرمایا امام علی عليہ السلام كي معين كردہ جگہ کوفہ کے نزدیک غری (غریین)کے قصبےميں رات كي تاريكي و تنہائي اور خاموشي سے آپ كو آهوں اور سسكيوں اور آنسوؤں كے ساتھ دفن كرديا گيا۔ اس جگہ پر كچھ انبياء كرام بھي مدفون تھے۔ جسے آج کل نجف اشرف کہا جاتا ھے ایک اور روایت میں ملتا ھے تابوت کو حسنین کریمین چند لوگوں کے ساتھ نجف کی مقدس زمین پر اس جگہ تک لے گئے جہاں مولاؑ نے بتا رکھا تھا وهاں پر لے گئے تو ایک سفید پتھر نمایاں ہوا ، امام حسنؑ نے سات تکبیروں کے ساتھ نماز پڑھی پھر او ر پھر فرمایا''اماانّھا لاٰ تُکَبّرُ علیٰ احدٍ بعدہ'' یعنی جان لو کہ علی علیہ السلام کے جنازہ کے بعد کسی بھی شخص کے جنازے پر سات تکبیریں نہیں کہی جائیں گی اس کے بعد اس جگہ کو کھودا ، ایک قبر ظاہر ہوئی اور وہاں پر ایک لوح (تختی) ملی جس پر لکھا ہوا تھا اس قبر کو پیغمبر نوح (علیہ السلام) نے حضرت علی علیہ السلام کیلئے تیار کیا تھا، حضرت کو صبح کے نزدیک وہاں پر دفن کردیا ( حوادث الایام، ص ۲۱۳۔) جنازہ مخفی رکھا گیاجب دوسري صبح هوئي تب لوگوں كو علم هوا كہ جناب ابو تراب عليہ السلام دفنائے جا چكے هيں ليكن آپ كي قبر اطهر كے بارے ميں كسي كو علم نہ تھا يہاں تک كہ بعض روايات ميں هے كہ حضرت امام حسن عليہ السلام نے ایک جنازہ تشكيل دے كر مدينہ روانہ كرديا تاكہ خوارج اور دشمنان علی عليہ السلام يہ سمجھيں كہ امام ع كو مدينہ ميں لے جا کر دفن كرديا گیا هے۔ اور وہ قبر علي عليہ السلام كی توهين نہ كريں۔ اس زمانے ميں خوارج كا قبضہ تھا۔ حضرت علی عليہ السلام كے فرزندان اور چند خواص كے علاوہ كسي كو خبر تک نہ تھی كہ مولا علی عليہ السلام كي قبر كہاں هے؟ سید ابن طاؤس کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی قبر اقدس کے پوشیدہ رکھنے میں بہت سے فوائد تھے کہ جن کی تفاصیل سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی! کوفہ کا شرف تیری قبر کی بدولت سے ہے … تو حضرت علی(ع) نے فرمایا: اے اللہ کے رسول(ص): کیا میں عراق کے شہر کوفہ میں دفن ہوں گا؟ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہاں تم اس کے پشت میں دفن ہو گے(فرحة الغری ص37/38) قبر کی بے حرمتی کی کوششحجاج بن یوسف جب بنو امیہ کی طرف سے گورنر بنا تو اس نے حضرت علی علیہ السلام کے لاشہ کی بے حرمتی کرنے کے لیے کوفہ، نجف اور اس کے گردو نواح میں موجود تین ہزار قبروں کو کھدوایا لیکن اسے حضرت علی علیہ السلام کی میت نہ ملی (کتاب منتخب التواریخ) انہی حالات کے پیش نظر حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی قبر اقدس کے بارے میں آئمہ اطہار علیہم السلام اور خاص شیعوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔ راز ظاہر ہونايہ راز ايک سو سال تک مخفي رها۔ بني اميہ چلے گئے اور بني عباس آگئے۔ اب يہ خطرہ ٹل گيا۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے سب سے پهلے امام علي عليہ السلام كي قبر مبارک کی نشاندہی كى" اور علانيہ طور پر لوگوں كو بتايا كہ ہمارے جد امجد امير المومنين عليہ السلام يہاں پر دفن هيں۔ زيارت عاشورا كا راوی صفوان كہتا هے كہ ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كي خدمت اقدس ميں كوفہ ميں تھا۔ آپ ہميں قبر علی عليہ السلام كے سراہانے لے آئے اور اشارہ كركے فرمايا يہ هے دادا علی عليہ السلام كي قبر اطهر۔ آپ نے هميں حكم ديا كہ هم امام علی عليہ السلام كي قبر پر سايہ كا اهتمام كريں۔ بس اسي روز سے والی نجف كي آخري آرام گاہ مشهور هوئی۔ كتنے بڑے دكھ كي بات هے كہ علی عليہ السلام كے دشمن اس قدر كينہ پرور اور كمينہ صفت لوگ تھے كہ ايک صدی تک آپؑ كي قبر غير محفوظ تھی۔ ابن ملجم کا انجاممحمد بن حنفیہ کہتاہے : جب امام حسن علیہ السلام کفن و دفن امام علی علیہ السلام سے فارغ ہوئے، آپؑ چاہتے تھے کہ تین دن بعد ابن ملجم کو سزا دیں مگر امام علی علیہ السلام کی اولاد کے اصرار پر اکیس رمضان کی صبح کو امام حسن علیہ السلام کے حکم سے ابن ملجم کو جیل سے لایا گیا اور امام علی علیہ السلام کی وصیت اور احکام اسلامی پر عمل کرتے ہوئے اس کی گردن پر امام حسن علیہ السلام نے ایک ضربت لگائی اور گردن کاٹ دی ایک قول کے مطابق ام ہیثم ، اسود نخعی کی بیٹی نے ابن ملجم کے جنازہ کو تحویل میں لیا اور اس کو آگ لگا دی اور ایک قول کے مطابق لوگ اس کے مرنے کے بعد اس کی میت کو کوفہ سے باہر لے گئے اور آگ لگا دی۔ ( بحارا لانوار ج ٤٢ ص ٢٩٧ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٦ ص ١٢٥،الارشاد ص ١٨۔) معاویہ کی خوشیجب شام میں معاویہ نے امام علیؑ کی شہادت کی خبر سنی تو پہلے خوش و خرم ہوا اور بعد میں سجدہ شکر کیا اور یہ شعر پڑھے: علی نے اپنی جان دے دی اور اس کے بعد علی کے لیے لوٹنا ممکن نہیں، اور میں یہ خبر سن کر بہت زیادہ خوش و خرم ہوں جس طرح کسی کے گھر والے سفر سے لوٹتے ہیں اس طرح، علی کی موت نے میری آنکھوں کو روشنی دی ہے۔ ڈراونا واقعہروایت میں ہے داؤود عباسی نے ایک دفعہ اپنے چند با اعتماد غلاموں کو حضرت علی علیہ السلام کی قبر اقدس کے کھودنے کے لیے بھیجا ان غلاموں میں ایک حبشی غلام بھی تھا کہ جو اپنی قوت و طاقت میں کافی مشہور تھا، ان غلاموں نے جب قبر اقدس کو پانچ ہاتھوں کے برابر کھود لیا تو ایک مضبوط پتھر ظاہر ہوا کہ جو کھدائی کے عمل میں رکاوٹ بن گیا اور کوشش کے باوجود اس پتھر کو نہ وہ توڑ سکے اور نہ ہی اپنی جگہ سے ہلا سکے تو اس وقت ان غلاموں نے اس حبشی غلام کو پتھر ہٹانے کے لیے کہا اور جب اس غلام نے دو تین مرتبہ اس پتھر پر ضرت لگائی، تو وہ غلام چیخنا چلانا شروع ہو گیا اور وہاں سے نکلنے کے لیے اپنے ساتھوں سے مدد طلب کرنے لگا، جب اس کو وہاں سے نکالا گیا تو وہ انتہائی خوف زدہ تھا سب نے اس سے چیخنے چلانے اور خوفزدہ ہونے کا سبب پوچھا لیکن اس نے کسی کو بھی اس کے بارے میں نہ بتایا اور پھر اس کے بعد اس کا گوشت اس کے جسم سے کٹ کٹ کر گرنے لگا۔ داؤود عباسی کو جب تمام واقعات سے آگاہ کیا گیا تو اس نے اپنی اس حرکت کو چھپانے کے لیے سب غلاموں سے اس معاملے کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا اور پھر قبر کو از سر نو تعمیر کر کے ایک لکڑی کا صندوق قبر پر بطور نشانِ قبر رکھ دیا۔(فرحة الغری ص61)۔ نجف اشرف میں اماموں کا جاناچھ اماموں نے نجف اشرف میں امیر المومنین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی ہے: جن میں امام حسین (ع) امام سجاد (ع) امام باقر (ع) امام صادق (ع) امام علی نقی (ع) امام حسن عسکری (ع)شامل هیں قبر امام علی ع سے اختلاف کرنے والوں میں ابن سعد کا اختلاف وہ بھی راوی قیس بن ربیع کی اختلاف کی وجہ اور محمد بن عبید الطنافسی اس کے کردار کی گواہی ہی کافی هے وہ کتنا فحاش اور سفاک تھا جبکہ اس وقت زریت امامؑ سے کافی معتبر لوگ موجود تھے صاحب تاریخ طبری نے بھی اختصار میں لکھتے هوے جو ابہام ڈالا وہ بھی اپنی مثال آپ هیں ابن عبدالبر - ابن العماد اور ابن مسعودی کے آپس کے اختلافات بھی عجیب هیں کہ کوئی فقط کوفہ میں تدفین بتاتا تو کوئی فقط جنازہ مدینہ روانہ کرنے کا بتاتا تو کوئی وادی طی لیکن ان مختلف اقوال کے پیچھے نہ کوئی سند ہے اور نہ ہی کوئی روایت ہے یعقوبی کی تاریخ انہیں کوفہ میں غری نامی مقام میں دفن بتاتی تو کتاب الصحیفہ میں ابی مخنفف الاسود، کندی اور الاجلنح سے روایت ہے کہ آپ مقام رحبہ جو کہ ابواب کندہ کے بعد ہے پر دفن هوے سید ابن طاوئوس نے کتاب الفرحتہ اور ابن عبد ربہ نے اپنی کتاب العقدہ بھی یہ ہی مقام بتاتے هیں ابن کثیر اور خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد کی مباحثے بھی ایسے ہی آپس میں ملتے جلتے هیں لیکن ابو الفرج کا ہر بات ادھوری چھوڑ دینا سمجھ سے بلاتر هے ب۔۔ [ چهارشنبه سی ام فروردین ۱۴۰۲ ] [ 1:54 ] [ ڈاکٹر غلام عباس جعفری، آزاد کشمیر ]
|
||
| [قالب وبلاگ : تمزها] [Weblog Themes By : themzha.com] | ||